مشکوٰۃ المصابیح - افلاس اور مہلت دینے کا بیان - حدیث نمبر 2951
عن سويد بن قيس قال : جلبت أنا ومخرفة العبدي بزا من هجر فأتينا به مكة فجاءنا رسول الله صلى الله عليه و سلم يمشي فساومنا بسراويل فبعناه وثم رجل يزن بالأجر فقال له رسول الله : زن وأرجح . رواه أحمد وأبو داود والترمذي وابن ماجه والدارمي وقال الترمذي : هذا حديث حسن صحيح
آنحضرت کا پائجامہ خریدنا
حضرت سوید بن قیس کہتے ہیں کہ میں اور مخرفہ عبدی نے مقام ہجر سے ( جو مدینہ کے قریب واقع ہے) بیچنے کے لئے کپڑا لیا اور اسے لے کر مکہ میں آئے رسول اللہ ﷺ (کو جب یہ معلوم ہوا کہ ہم بیچنے کے لئے کپڑا لے کر مکہ آئے ہیں تو آپ ﷺ بہ نفس نفیس چل کر (بغیر سواری کے) ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے ایک پائجامہ خریدا چناچہ جب ہم نے وہ پائجامہ آپ ﷺ کو بیچا تو آپ ﷺ نے اس شخص سے کہ جو اس جگہ اجرت پر لوگوں کے اسباب تولا کرتا تھا فرمایا کہ تم میرے چاندی کے یہ ٹکڑے) تول دو تاکہ میں یہ ٹکڑے اس پائجامہ کی قیمت کے طور پر دیدوں) اور جتنے ٹکڑوں کی بات طے ہوئی ہے اس سے کچھ زیادہ ہی تول دینا) احمد ابوداؤد)

تشریح
ابولیلی نے اپنی سند میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے وہ پائجامہ چار درہم کے عوض خرید فرمایا تھا احادیث سے صرف آپ ﷺ کا پائجامہ خریدنا ثابت ہوتا ہے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ ﷺ نے وہ پائجامہ پہنا بھی تھا۔ اس حدیث میں جہاں آنحضرت ﷺ کی تواضع و انکساری کا بیان ہے کہ آپ ﷺ پائجامہ خریدنے کے لئے بہ نفس نفیس تشریف لے گئے تھے وہیں اس حدیث سے آپ ﷺ کے کمال اخلاق و کرم فرمائی کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے پائجامہ بیچنے والے کو طے شدہ قیمت سے زائد مال عنایت فرمایا۔ یہ حدیث بھی بظاہر اس باب کے موضوع سے متعلق نہیں ہے الاّ یہ کہ یہ کہا جائے کہ بعض وقت بیچنے والے کے افلاس اور اس کی خستہ حالت کی وجہ سے اس کو ازراہ احسان و بھلائی متعینہ قیمت سے کچھ زائد بھی دیدیا جائے اس مناسبت سے یہ حدیث یہاں نقل کی گئی ہے۔
Top