مشکوٰۃ المصابیح - شرکت اور وکالت کا بیان - حدیث نمبر 2961
عن أبي هريرة رفعه قال : إن الله عز و جل يقول : أنا ثالث الشريكين ما لم يخن صاحبه فإذا خانه خرجت من بينهما . رواه أبو داود وزاد رزين : وجاء الشيطان
امانت دار شرکاء اللہ تعالیٰ محافظ رہتا ہے
اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میں دو شریکوں کے درمیان ایک تیسرا نگہبان ہوں جب تک کہ ان میں سے کوئی اپنے دوسرے شریک کے ساتھ خیانت نہیں کرتا۔ اور جب وہ خیانت و بددیانتی پر اتر آتے ہیں تو میں ان کے درمیان سے ہٹ جاتا ہوں (ابوداؤد) اور رزین نے اس روایت کے آخر میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ اور پھر ان کے درمیان شیطان آجاتا ہے۔

تشریح
میں دو شریکوں کے درمیان ایک تیسرا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ شرکاء جب تک دیانت امانت اور ایمان داری کے ساتھ باہم شریک رہتے ہیں میری محافظت و برکت کا سایہ ان پر رہتا ہے بایں طور کہ میں انہیں ہر نقصان و تباہی سے محفوظ رکھتا ہوں ان کے مال پر کوئی آفت نازل نہیں کرتا ان کے رزق میں وسعت بخشتا ہوں ان کے معاملات میں خیر و بھلائی برقرار رکھتا ہوں ان کے مال پر کوئی آفت نازل نہیں کرتا ان کے رزق میں وسعت بخشتا ہوں ان کے معاملات میں خیر و بھلائی برقرار رکھتا ہوں اور ہر موقع پر ان کی مدد ونصرت کرتا ہوں۔ ان کے درمیان سے ہٹ آتا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ جب شرکاء میں بددیانتی کے جراثیم پیدا ہوجاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ خیانت کرنے لگتے ہیں تو میری محافظت و برکت کا سایہ ان سے ہٹ جاتا ہے اور اس کے بجائے شیطان اپنا تسلط جما لیتا ہے جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ شرکاء مکمل نقصان و تباہی کے کنارے پہنچ جاتے ہیں اور ان کے مال ورزق سے برکت ختم ہوجاتی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معاملات بطور خاص تجارت وغیرہ میں شرکت مستحب ہے کیونکہ اس کیوجہ سے کاروبار اور مال و سرمایہ میں اللہ تعالیٰ کی وہ برکت نازل ہوتی ہے جو تنہا کاروبار کرنے والے کو حاصل نہیں ہوتی اس لئے کہ جب کسی کاروبار میں دو آدمی شریک ہوتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک اپنے دوسرے شریک کے مال کی حفاظت و نگرانی میں کوشاں رہتا ہے اور یہ معلوم ہی ہے کہ کوئی بندہ جب تک اپنے مسلمان بھائی کی مدد اور خیر خواہی میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال رہتی ہے۔
Top