مشکوٰۃ المصابیح - غصب اور عاریت کا بیان - حدیث نمبر 2986
وعن رافع بن عمرو الغفاري قال : كنت غلاما أرمي نخل الأنصار فأتي بي النبي صلى الله عليه و سلم فقال : يا غلام لم ترمي النخل ؟ قلت : آكل قال : فلا ترم وكل مما سقط في أسفلها ثم مسح رأسه فقال : اللهم أشبع بطنه . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه وسنذكر حديث عمرو بن شعيب في باب اللقطة إن شاء الله تعالى
درخت سے گرے ہوئے پھل اٹھانے کا مسئلہ
اور حضرت رافع عمرو غفاری کہتے ہیں کہ جب میں بچہ تھا تو انصار کے کھجوروں کے درختوں پر پتھر پھینکا کرتا تھا ایک دین انصار مجھے پکڑ کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے گئے آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا اے لڑکے! تو کھجوروں پر پتھر کیوں پھینکتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کھجوریں کھاتا ہوں (یعنی کھجوریں کھانے کے لئے ان کے درختوں پر پتھر مارتا ہوں کسی اور مقصد سے پتھر نہیں پھینکتا) آپ ﷺ نے فرمایا کہ پتھر نہ پھینکا کر وہاں جو کھجوریں درخت کے نیچے گری پڑی ہوں ان کو کھالیا کرو پھر آپ ﷺ نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور فرمایا کہ اے اللہ تو اس کا پیٹ بھر (ترمذی، ابوداؤد ابن ماجہ)

تشریح
آنحضرت ﷺ نے رافع کو درخت کے نیچے گری پڑی کھجوریں کھا لینے کی اجازت اس لئے عطا فرمائی کہ عام طور پر درختوں پر سے گرے ہوئے پھلوں کو کھانے سے کوئی منع نہیں کرتا۔ خاص طور پر بچے چونک کچے پکے اور گرے پڑے پھلوں کی طرف بہت راغب ہوتے ہیں اس لئے ان کو اس سے کوئی بھی منع نہیں کرتا تاکہ وہ درخت کے نیچے گرے پڑے پھل اٹھا کر کھا لیں۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ اگر رافع حالت اضطرار میں ہوتے یعنی بھوک کی وجہ سے مجبور ہوتے تو آنحضرت ﷺ انہیں گرے پڑے پھلوں ہی کے کھانے کی اجازت دینے پر اکتفاء نہ فرماتے بلکہ درخت پر سے کھجوریں توڑ کر کھا لینے کی بھی اجازت دیدیتے۔ وسنذکر حدیث عمرو بن شعیب فی باب اللقطۃ انشاء اللہ تعالیٰ۔
Top