مشکوٰۃ المصابیح - عطایا کا بیان - حدیث نمبر 3033
عطایا کا بیان
عطایا لفظ عطیہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں بخشش یعنی اپنی کسی چیز کی ملکیت اور اس کے حق تصرف کو کسی دوسرے کی طرف منتقل کردینا یا کسی کو اپنی کوئی چیز بلا کسی عوض دے دینا چناچہ اس باب میں عطاء و بخشش کی تمام قسموں مثلًا وقف ہبہ عمری اور رقبی کا ذکر کیا جائے گا۔ ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ عطایا سے مراد امراء و سلاطین اور سربراہان مملکت کی بخششیں اور ان کے انعام ہیں۔ امام غزالی نے منہاج العابدین میں لکھا ہے کہ امراء و سلاطین کی بخششوں اور سرکاری انعامات کو قبول کرنے کے سلسلے میں میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں چناچہ بعض علاء تو یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ بخشش انعام کسی ایسے مال کی صورت میں ہو جس کے حرام ہونے کا یقین نہ ہو تو اسے قبول کرلینا درست ہے لیکن بعض حضرات کا یہ قول ہے کہ جب تک اس مال کے حلال ہوجانے کا یقین نہ ہو تو اسے قبول نہ کرنا ہی اولی ہے اور زیادہ بہتر ہے کیونکہ موجودہ زمانے میں سلاطین کے پاس اور سرکاری خزانوں میں اکثر وبیشتر غیرشرعی ذرائع سے حاصل ہونیوالا مال وزر ہوتا ہے۔ بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ غنی اور فقیر (یعنی مستطیع ومفلس) دونوں کے لئے امراء و سلاطین کے صلے (تحفے وہدایا) حلال ہیں جب کہ ان کا مال حرام ہونا تحقیقی طور پر ثابت نہ ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس کا تحفہ قبول فرمایا تھا اور ایک یہودی سے قرض لیا تھا باوجود یہ کہ یہودیوں کے بارے میں قرآن کریم نے آیت (اکالون للسحت) ( حرام مال کھانیوالے) فرمایا ہے۔ اور بعضوں نے یہ کہا ہے کہ جس مال کے حرام ہونے کا یقین نہ ہو وہ فقیر (مفلس) کے لئے تو حلال ہے لیکن غنی مستطیع کے لئے حلال نہیں ہے۔ آخر میں خلاصہ طے طور پر یہ مسئلہ جان لیجئے کہ جو شخص مفلس ونادار ہو اس کے لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ سلاطین کا مال قبول کرے کیونکہ اگر وہ مال سلطان کی ذاتی ملکیت میں سے ہے تو اس کو لے لینا بلاشبہ درست ہے اور اگر وہ مال فئی مال غنیمت خراج یا عشر میں سے ہے تو پھر مفلس اس کا حقدار ہی ہے اسی طرح ایسے مال میں جو فئی اور خراج عشر میں حاصل ہوا ہو اہل علم کا بھی حق ہے کہ اسے وہ مال لے لینا چاہئے چناچہ منقول ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ جو شخص برضا ورغبت اسلام میں داخل ہوا اور اس نے قرآن یاد کیا تو وہ بیت المال سے ہر سال دو سو درہم لینے کا حق دار ہے اگر وہ اپنے اس حق کو دنیا میں نہیں لے گا تو وہ یعنی اس کا اجر اسے عقبی میں مل جائے گا۔ لہذا ثابت ہوا کہ مفلس اور عالم دین کو بیت المال سے اپنا حق لے لینا چاہئے۔
Top