مشکوٰۃ المصابیح - عطایا کا بیان - حدیث نمبر 3051
وعن أنس قال : لما قدم رسول الله صلى الله عليه و سلم المدينة أتاه المهاجرون فقالوا : يا رسول الله ما رأينا قوما أبذل من كثير ولا أحسن مواساة من قليل من قوم نزلنا بين أظهرهم : لقد كفونا المؤونة وأشركونا في المهنأ حتى لقد خفنا أن يذهبوا بالأجر كله فقال : لا ما دعوتم الله لهم وأثنيتم عليهم . رواه الترمذي وصححه
شکران نعمت کی اہمیت
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ (مکہ سے ہجرت فرما کر) مدینہ تشریف لے آئے تو ایک دن مہاجرین کی ایک جماعت آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ہم نے ایسی کوئی قوم نہیں دیکھی جو زیادہ مالداری میں بہت زیادہ خرچ کرنے اور کم مالداری میں بہت اچھی خدمت اور مدد کرنے کے وصف میں اس قوم سے بہتر ہو جس میں ہم آ کر اترے ہیں انہوں نے (یعنی انصار نے) ہمیں محنت سے سبکدوش کردیا اور تمام تر منفعت میں ہمیں شریک کرلیا ہے اور اب ان کے اس جذبے سخاوت اور ایثار کو دیکھتے ہوئے ہمیں تو یہ اندیشہ ہے کہ تمام تر ثواب کہیں انہی کے حصہ میں نہ آجائے؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں تمام تر ثواب انہی کے حصہ میں نہیں آئے گا جب تک کہ تم ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہو گے اور ان کی تعریف یعنی شکرانہ نعمت ادا کرتے رہو گے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اسے صحیح کہا ہے۔

تشریح
جب نبی کریم ﷺ نے مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ میں اقامت اختیار فرمائی اور آپ ﷺ کے ساتھ ہی مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد بھی مدینہ میں اقامت گزیں ہوئی تو مدینہ کے رہنے والوں یعنی انصار نے ان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا اور ایثار وسخاوت نیز اخوت و محبت کی جو عظیم روایت قائم کی بلا مبالغہ تاریخ انسانی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے انصار مدینہ نے مہاجرین مکہ کے لئے اپنے دیدہ ودل ہی فرش راہ نہیں کئے بلکہ اپنے خون پسینہ کی گاڑھی کمائی بھی ان کے لئے وقف کردی انہوں نے اپنی زمین اپنے باغات اور اپنے مکانات آدھوں آدھ ان میں تقسیم کر دئیے ان کی خدمت گزاری اور خاطر تواضع میں شرافت انسانی کی ساری بلندیوں کو پیچھے چھوڑ دیا چناچہ ان کے اسی طرز عمل اور ان کے بےپایاں احسانات نے مہاجرین کو اتنا متاثر کیا کہ وہ باقاعدہ بارگاہ رسالت میں اپنا یہ اندیشہ لے کر حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ ﷺ! یہ انصار کہیں سارا ثواب ہی نہ لے بیٹھیں کیونکہ ہم نے تو آج تک ان سے زیادہ ایثار پسند مخیر و سخی اور احسان کرنیوالی کوئی قوم نہیں دیکھی ہے انہوں نے مال و زر کی کمی بیشی سے بےنیاز ہو کر ہماری خاطرداری کی ہے جس کے پاس زیادہ مال تھا اس نے ہم پر اتنا ہی زیادہ خرچ کیا جس کے پاس کم مال تھا اس نے اسی کے مطابق ہماری اعانت کی گویا جس کی جتنی استطاعت تھی اس نے اسی حیثیت سے ہماری مہمانداری وغم خواری کی یہاں تک کہ انہوں نے حصول معاش میں ہمیں محنت ومشقت سے بھی باز رکھا بایں طور کہ کھیتی باڑی کی محنت باغات اور درختوں کی دیکھ بھال کی صعوبت اور مکانات بنانے کی مشقت انہوں نے خود اپنے ذمہ لی مگر منفعت و پیداوار میں ہمیں برابر کا شریک رکھا ہے کہ وہ اپنی زمین اور اپنے باغات میں اپنی محنت سے جو کچھ کرتے ہیں آدھا ہمیں تقسیم کردیتے ہیں چناچہ اب تو ڈرنے لگے ہیں کہ یہ ہمارا ثواب خود ہی حاصل نہ کریں اور یہ اندیشہ ہے کہ ہماری ہجرت اور ہماری عبادتوں کا اجر اللہ تعالیٰ کہیں ان کے اعانات کی بےپناہ زیادتی کی وجہ سے ان کے نامہ اعمال میں لکھ دے۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے انہیں بتایا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم بہت وسیع ہے اس کے ہاں اجر کی کمی نہیں ہے تمہیں تمہاری عبادت کا ثواب ملے گا اور انصار کو ان کی مددگاری اور ان کے ایثار وسخاوت کا اجر دیا جائے گا تاوقتیکہ تم ان کے لئے بھلائی کی دعا کرتے رہو کیونکہ ان کے حق میں تمہاری یہی دعا ان کے احسان کا بدلہ ہوجائے گی اور تمہاری عبادتوں کا ثواب تمہیں ہی ملتا رہے گا۔
Top