مشکوٰۃ المصابیح - جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان - حدیث نمبر 3181
جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان کا بیان
نکاح کے صحیح ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ عورت محرمات میں سے نہ ہو لہذا اس باب میں یہی بتایا جائے گا کہ کون کون عورتیں محرمات میں سے ہیں کہ جن سے نکاح کرنا حرام ہے۔ ان عورتوں کی تفصیل فقہ حنفی کی مشہور ومعتمد کتاب فتاوی عالمگیری میں بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فتاوی عالمگیری کی اس تفصیل کو یہاں ذکر کردیا جائے۔ محرمات کی تفصیل جو عورتیں محرمات میں سے ہیں ان کی نو قسمیں ہیں یا یوں کہیے کہ نکاح کے حرام ہونے کے نو سبب ہیں جن کی نمبر وار تفصیل یوں ہے پہلا سبب نسبی رشتہ جو عورتیں نسبی رشتہ کے سبب حرام ہوتی ہیں وہ یہ ہیں۔ ماں بیٹی بہن پھوپھی خالہ بھتیجی اور بھانجی۔ لہذا ان رشتوں سے نکاح کرنا جماع کرنا اور ایسے کام کرنا جو جماع کے محرک اور سبب بن جاتے ہیں جیسے بوسہ لینا وغیرہ یہ سب کام ہمیشہ کے لئے حرام ہیں۔ ماں سے اپنی ماں بھی مراد ہے اور دادی اور نانی خوہ اوپر کے درجہ کی ہوں جیسے پردادی اور پر نانی وغیرہ) بھی مراد ہیں۔ بیٹی کے حکم میں اپنی حقیقی بیٹی اپنے بیٹے کی بیٹی پوتی اپنی بیٹی کی بیٹی یعنی نواسی اور اس طرح نیچے تک سب شامل ہیں۔ اسی طرح بہن خواہ حقیقی ہو خواہ سوتیلی صرف باپ شریک ہو اور خواہ اخیافی صرف ماں شریک ہو سب حرام ہیں۔ بھتیجی اور بھانجی سے بھی تین طرح کی بھتیجیاں اور بھانجیاں یعنی حقیقی بھائی بہن کی اولاد، سوتیلے بھائی بہن کی اولاد اور اخیافی بھائی بہن کی اولاد مراد ہیں (اگرچہ نیچے درجہ کی ہوں کہ یہ سب محرمات میں سے ہیں۔ پھوپھی بھی تینوں طرح کی مراد ہیں یعنی حقیقی پھوپھی سوتیلی باپ شریک) پھوپھی اور اخیافی صرف ماں شریک پھوپھی اسی طرح پھوپھی کے حکم میں باپ کی پھوپھی اور دادا کی پھوپھی اور دادی کی پھوپھی بھی شامل ہیں کہ یہ سب پھوپھیاں بھی محرمات میں سے ہیں، ہاں پھوپھی کی پھوپھی حرام ہے یا نہیں اس میں تفصیل ہے۔ اگر مثلا زید کی پھوپھی اس کے باپ کی حقیقی بہن ہو یا سوتیلی یعنی صرف باپ شریک بہن ہو تو اس پھوپھی کی پھوپھی زید کے لئے حرام ہوگی اور اگر زید کی پھوپھی اس کے باپ کی اخیافی ( یعنی صرف ماں شریک) بہن ہو تو ایسی پھوپھی زید کے لئے حرام نہیں ہوگی۔ خالہ بھی کئی طرح کی مراد ہیں تفصیل یہ ہے کہ اگر مثلا سوتیلی خالہ اخیافی خالہ اپنے باپ کی خالہ اور اپنی ماں کی خالہ یہ سب خالائیں حرام ہیں لیکن خالہ کی خالہ کے بارے میں تفصیل ہے اگر مثلا زید کی خالہ اس کی ماں کی حقیقی بہن ہو یا اخیافی یعنی صرف ماں شریک بہن ہو تو اس خالہ کی خالہ زید کے لئے حرام ہوگی یعنی اس سے زید کا نکاح نہیں ہوسکتا اور اگر زید کی خالہ اس کی ماں کی سوتیلی یعنی صرف باپ شریک بہن ہو تو ایسی خالہ حرام نہیں ہوگی اس سے زید کا نکاح جائز ہوگا۔ دوسرا سبب سسرالی رشتہ وہ عورتیں جو بسبب صہریت یعنی سسرالی رشتہ کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہیں ان کی چار قسمیں ہیں ایک ساس یعنی بیوی کی ماں دو یا ساس یعنی بیوی کی دادی، ننیاساس یعنی بیوی کی نانی اور اس سے اوپر کے درجہ کی مثلا بیوی کے باپ اور ماں کی دادی وغیرہ بیوی کی بیٹی اور بیوی کے بیٹوں کی اولاد اور اس سے نیچے کے درجہ کی مثلا بیوی کی نواسی کی اولاد وغیرہ یہ سب حرام ہیں بشرطیکہ بیوی سے جماع کرلیا ہو خواہ وہ بیوی کی بیٹی اس مرد کی پرورش میں ہو یا نہ ہو اور حنفی علماء نے بیوی کی بیٹیوں کی حرمت کے سلسلہ میں خلوت صحیحہ کو جماع کا قائم مقام قرار نہیں دیا یعنی بیوی کی بیٹیوں کی حرمت ثابت کرنے کے لئے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ مرد نکاح کے بعد بیوی سے جماع بھی کرلے اگر صرف خلوت صحیحہ ہوئی ہو یعنی جماع کرنے کا پورا موقع مل گیا ہو) مگر دونوں نے جماع نہ کیا ہو تو اس صورت میں اس بیوی کی بیٹی ( جو دوسرے شوہر کے نطفہ سے ہو) کی حرمت ثابت نہیں ہوگی بہو یعنی بیٹے کی بیوی پوت بہو یعنی پوتے کی بیوی اور نواسی بہو یعنی نواسے کی بیوی اور اسے نیچے کے درجہ کی (یعنی پڑپوتے کی بیوی وغیرہ) اور ان عورتوں کے ساتھ ان کے شوہروں یعنی بیٹے اور پوتے وغیرہ نے جماع کیا ہو یا نہ کیا ہو دونوں صورتوں میں حرام ہیں۔ ہاں لے پالک یعنی منہ بولے بیٹے کی بیوی حرام نہیں ہوتی یعنی مثلا زید بکر کا منہ بولا بیٹا ہے تو زید کی بیوی بکر کے حق میں محرمات میں سے نہیں ہوگی اگر زید اپنی بیوی کو طلاق دیدے یا وہ مرجائے تو بکر اس کی مطلقہ یا وہ بیوہ سے اپنا نکاح کرسکتا ہے باپ کی بیوی یعنی سوتیلی ماں اور دادا اور نانا کی بیویاں یعنی سوتیلی دادی اور سوتیلی نانی اور اس سے اوپر کے درجہ کے یہ سب بھی ہمیشہ کے لئے حرام ہیں نہ ان سے نکاح ہوسکتا ہے اور نہ کسی دوسرے طریقہ سے جماع ہوسکتا ہے۔ سسرالی رشتہ سے حرمت اس صورت میں ثابت ہوتی ہے جب کہ نکاح صحیح ہو فاسد نکاح سے حرمت ثابت نہیں ہوگی چناچہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے زنا کیا تو زنا کرنیوالے کے لئے اس عورت کی ماں، دادی، نانی اور اس عورت کی بیٹی پوتی نواسی سب حرام ہوجائیں گی اسی طرح اس عورت کے لئے زنا کرنیوالے کے باپ دادا نانا اور اس عورت کے لڑکے پوتے نواسے سب حرام ہوجائیں گے۔ اگر کسی شخص نے ایک عورت سے جماع کیا جس کی وجہ سے اس عورت کے پیشاب اور پاخانہ کا مقام ایک ہوگیا تو اس عورت کی ماں جماع کرنیوالے کے لئے حرام نہیں ہوگی کیونکہ اس صورت میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے عورت کے پیشاب کے مقام ہی میں جماع کیا ہے ہاں اگر جماع کے بعد وہ عورت حاملہ ہوجائے اور یہ معلوم بھی ہوجائے کہ یہ حمل اسی شخص کے نطفہ سے قرار پایا ہے تو اس صورت میں اس کی ماں اس کے لئے حرام ہوجائے گی۔ اور جس طرح یہ حرمت جماع کرنے سے ثابت ہوتی ہے اسی طرح شہوت کے ساتھ) عورت کو چھونے بوسہ لینے اور شہوت کے ساتھ عورت کی شرمگاہ کی طرف دیکھنے سے ثابت ہوجاتی ہے۔ اور یہ مذکورہ چیزیں یعنی چھونا وغیرہ خواہ نکاح کی صورت میں پیش آئیں یا خواہ ملکیت کی صورت میں اور خواہ فجور کی صورت میں حنفیہ کے نزدیک یہ تینوں یکساں ہیں۔ نیز حنفی علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس بارے میں شبہ اور غیرشبہ برابر ہیں اور اس سلسلہ میں شہوت کے ساتھ مباشرت (مرد و عورت کا شہوت کے ساتھ ایک دوسرے سے لپٹنا) بھی بوسہ کے حکم میں ہے اسی طرح معانقہ کا بھی یہی حکم ہے ایسے ہی اگر شہوت کے ساتھ دانتوں سے اس کو کاٹا تو بھی یہی حکم ہے یعنی ان تمام صورتوں میں حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔ اگر کسی نے شہوت کے ساتھ مرد کے عضو مخصوص کی طرف دیکھا یا شہوت کے ساتھ اس کو ہاتھ لگایا یا بوسہ لیا تو اس صورت میں اس کے ساتھ حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی اور باقی دوسرے تمام اعضاء کی طرف دیکھنے سے اور ان کو ہاتھ لگانے سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ہاں اگر یہ دیکھنا یا ہاتھ لگانا شہوت کے ساتھ ہو تو پھر بغیر کسی اختلاف کے حرمت ثابت ہوجائے گی۔ حرمت کے سلسلہ میں عورت کی شرمگاہ کے ظاہری حصہ کو دیکھنے کا اعتبار نہیں ہے بلکہ اندر کے حصہ کو دیکھنے سے حرمت ثابت ہوا کرتی ہے چناچہ علماء نے لکھا ہے کہ اگر مرد کسی کھڑی ہوئی عورت کی شرم گاہ کو دیکھ لے تو اس صورت میں حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی کیونکہ عورت جب کھڑی ہوئی ہو تو اس کی شرم گاہ کے اندرونی حصہ پر نظر نہیں پڑتی بلکہ شرمگاہ کے اندرونی حصہ پر اس وقت نظر پڑے گی جب وہ پشت سے تکیہ لگائے ہوئے بیٹھی ہو۔ اگر کسی مرد نے عورت کی شرمگاہ کے اندرونی حصہ کو اس طرح دیکھا کہ درمیان میں باریک پردہ یا شیشہ حائل تھا لیکن اندرونی حصہ نظر آرہا تھا تو بھی حرمت ثابت ہوجائے گی۔ ہاں اگر کوئی شخص آئینہ دیکھ رہا تھا اور اس میں کسی عورت کی شرمگاہ نظر آگئی اور پھر مرد نے اس کو شہوت کے ساتھ دیکھا تو اس مرد پر نہ اس عورت کی ماں حرام ہوگی اور نہ بیٹی حرام ہوگی کیونکہ اس نے شرمگاہ کو نہیں دیکھا بلکہ اس کا برعکس دیکھا۔ اگر کوئی عورت پانی کے حوض کے کنارے پر یا پل پر بیٹھی ہو اور کسی مرد نے اس کا عکس پانی میں دیکھا اور پھر اس کے بعد وہ شہوت کے ساتھ پانی ہی میں اس کی شرمگاہ کا عکس دیکھتا رہا تو اس صورت میں بھی حرمت ثابت نہیں ہوگی ہاں اگر عورت پانی میں ہو اور مرد کی نگاہ اس کی شرمگاہ پر پڑھ جائے اور پھر اسے شہوت کے ساتھ دیکھے تو حرمت ثابت ہوجائے گی۔ کسی عورت کو شہوت کے ساتھ چھونے سے حرمت ثابت ہونے کے سلسلے میں یہ ضروری نہیں ہے کہ قصدا چھوئے تب ہی حرمت ثابت ہوگی بلکہ چاہے قصدًا چھوئے یا چاہے بھول کر چھوئے چاہے کسی کے زبردستی کرنے سے یا خود غلطی سے چھوئے اور چاہے نیند کی حالت میں چھوئے ہر صورت میں حرمت ثابت ہوجائے گی۔ چناچہ اگر کسی مرد نے جماع کرنے کے لئے اپنی بیوی کو نیند سے اٹھانا چاہا مگر غلطی سے اس کا ہاتھ لڑکی پر پڑھ گیا اور پھر یہ سمجھ کر کہ یہی میری بیوی ہے شہوت کے ساتھ اس کی چٹکی بھر لی اور وہ لڑکی بھی جوان تھی قابل شہوت تھی تو اس صورت میں اس مرد کے لئے اس لڑکی کی ماں یعنی اس کی بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے گی۔ اگر کسی مرد نے شہوت کے ساتھ عورت کے ان بالوں کو ہاتھ لگایا جو سر سے ملے ہوئے ہیں تو حرمت ثابت ہوجائے گی اور اگر لٹکے ہوئے بالوں کو ہاتھ لگایا تو حرمت ثابت نہیں ہوگی مگر ناطفی نے اس تفصیل کے بغیر مطلقا بالوں کے چھونے کو حرمت کا باعث لکھا ہے اسی طرح اگر مرد نے عورت کے ناخن کو شہوت کے ساتھ ہاتھ لگایا تو حرمت ثابت ہوجائے گی۔ یہ جو بتایا گیا ہے کہ عورت کو شہوت کے ساتھ چھونا اور ہاتھ لگانا حرمت کو ثابت کردیتا ہے تو اس بارے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ عورت کو چھونے اور ہاتھ لگانے سے اسی صورت میں حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے جب کہ دونوں کے درمیان کپڑا حائل نہ ہو اور اگر کپڑا حائل ہو تو وہ اس قدرباریک ہو کہ چھونے والے کا ہاتھ بدن کی حرارت محسوس نہیں ہوتی تو حرمت ثابت نہیں ہوگی خواہ اس کی وجہ سے مرد کے عضو مخصوص میں ایستادگی ہی کیوں نہ ہوجائے، اسی طرح اگر کسی مرد نے عورت کے موزہ کے نیچے کا حصہ چھوا تو حرمت ثابت ہوجائے گی ہاں اگر موزے پر چمڑا چڑھا ہوا ہو جس کی وجہ سے عورت کے پاؤں کی ایڑھی چھونے والے کو محسوس نہ ہو تو حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ اگر کسی مرد نے عورت کا بوسہ لیا ایسی حالت میں کہ دونوں کے درمیان کپڑا حائل ہو تو حرمت ثابت ہوجائے گی بشرطیکہ بوسہ لینے والے کو عورت کے دانتوں کی یا ہونٹوں کی ٹھنڈک محسوس ہو۔ حرمت ثابت ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ چھونے کے بعد دیر تک چھوتا ہی رہے چناچہ علماء نے لکھا ہے کہ اگر کسی نے شہوت کے ساتھ اپنی بیوی کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن وہ ہاتھ بیوی کی بجائے اپنی لڑکی کی ناک پر پڑھ گیا اور اس کے ساتھ ہی شہوت زیادہ ہوگئی تو اس لڑکی کی ماں یعنی بیوی اس مرد کے لئے حرام ہوجائے گی اگرچہ اس نے اپنا ہاتھ فورًا ہی ہٹا لیا ہو۔ حرمت ثابت ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ جس عورت کو ہاتھ لگایا جائے یا بوسہ لیا جائے اور وہ قابل شہوت ہو اور فتوی اس پر ہے کہ کم سے کم نو سال کی لڑکی قابل شہوت ہوتی ہے اس سے کم نہیں، چناچہ اگر کسی مرد نے کسی ایسی نابالغہ لڑکی سے جماع کیا جو قابل شہوت نہ ہویں تو حرمت ثابت نہیں ہوگی اس کے برخلاف اگر عورت اتنی بوڑھی ہوجائے کہ قابل شہوت نہ رہے تو وہ حرمت ثابت ہونے کا باعث بن جاتی ہے کیونکہ وہ حرمت کے حکم میں داخل ہوچکی تھی اور بڑھاپے کی وجہ سے اس حکم سے باہر نہیں ہوسکتی جب کہ نابالغہ ابھی حرمت کے حکم میں داخل ہی نہیں ہوئی۔ جس طرح حرمت ثابت ہونے کے لئے عورت کا قابل شہوت ہونا شرط ہے اسی طرح مرد کا بھی قابل شہوت ہونا شرط ہے۔ لہذا اگر چار سال کے بچہ نے مثلا اپنے باپ کی بیوی یعنی اپنی سوتیلی ماں سے جماع کرلیا تو اس کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔ لیکن اگر جماع کرنیوالا ایسا بچہ ہو جس کے ہم عمر بچے عام طور پر جماع کرسکتے ہوں تو تو اس کا وہی حکم ہوگا جو بالغ کا ہوتا ہے اور اس بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ ایسے بچہ کی پہچان یہ ہے کہ وہ جماع کرنے پر قادر ہو عورت کی طرف اس کا میلان ظاہر ہوتا ہو اور عورتیں اس سے شرم کرتی ہوں۔ مذکورہ بالا چیزوں یعنی چھونے اور دیکھنے کے بارے میں شہوت یعنی ہیجان کا ہونا شرط ہے یعنی عورت کو ہاتھ لگانے بوسہ لینے اور شرم گاہ کے اندرونی حصہ کی طرف دیکھتے وقت اگر شہوت ہو تب حرمت ثابت ہوگی لہذا اگر یہ دونوں چیزیں بغیر شہوت کے پائی جائیں اور پھر بعد میں شہوت پیدا ہو تو حرمت ثابت نہیں ہوگی اور شہوت کا معیار مرد کے لئے یہ ہے کہ اس کے عضو مخصوص میں ایستادگی ہوجائے اور اگر ایستادگی پہلے سے تھی تو اس میں زیادتی ہوجائے۔ اس مسئلہ میں یہی قول صحیح ہے اور اسی پر فتوی ہے لہذا اگر کسی مرد کے عضو مخصوص میں ایستادگی تھی ایسی حالت میں اس نے اپنی بیوی کو اپنے پاس بلایا اور پھر اسی دوران کسی طرح اس کا عضو مخصوص اس کی لڑکی کی دونوں رانوں کے درمیان داخل ہوگیا تو اس صورت میں اگر اس کے عضو مخصوص کی ایستادگی میں زیادتی نہ پیدا ہوگئی ہو تو اس لڑکی کی ماں یعنی اس کی بیوی اس کے لئے حرام نہیں ہوگی۔ اور شہوت کا معیار اس مرد کے لئے ہے جو جوان اور جماع کرنے پر قادر ہو اور اگر مرد بوڑھا ہو تو اس کے حق میں شہوت کا معیار یہ ہے کہ خواہش کے وقت اس کے قلب میں حرکت پیدا ہوجائے اگر پہلے سے حرکت نہیں تھی اور اگر قلب میں پہلے سے حرکت موجود تھی تو اس خواہش میں زیادتی ہوجائے اور عورت کے لئے اس اس مرد کے لئے جس کا عضو مخصوص کٹا ہوا ہو شہوت کا معیار یہ ہے کہ قلب میں خواہش پیدا ہو اور ہاتھ لگانے وغیرہ سے جنسی لذت حاصل ہو۔ اگر خواہش وغیرہ پہلے سے موجود نہ تھی اور اگر یہ پہلے سے موجود تھی تو اس میں زیادتی ہوجائے اور یہ بات ملحوظ رہے کہ مرد و عورت میں سے کسی ایک میں شہوت کا ہونا حرمت ثابت ہونے کے لئے کافی ہو۔ ہاتھ لگانے یا بوسہ لینے وغیرہ سے جو حرمت ثابت ہوتی ہے اس میں یہ شرط اور ضروری ہے کہ انزال نہ ہو اگر ہاتھ لگانے یا شرمگاہ کی طرف دیکھنے کے وقت انزال ہوگیا تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔ کیونکہ اب انزال ہونے سے یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ چھونا وغیرہ جماع لینے کا سبب نہیں بنا۔ اگر کسی مرد نے عورت کی مقعد کی طرف دیکھا تو اس سے حرمت ثابت نہیں ہوگی اسی طرح اگر کسی مرد نے عورت کے پیچھے کی طرف بدفعلی کی تو حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ ایسے ہی اگر مرد کے ساتھ جماع کے افعال کئے تو حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کے ساتھ حرمت مصاہرت کا اقرار کیا تو اس کا اعتبار کیا جائے گا اور ان دونوں یعنی میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کرا دی جائے گی اسی طرح اگر مرد نکاح سے قبل زمانہ کی طرف حرمت کی نسبت کرے یعنی اپنی بیوی سے یوں کہے کہ میں نے تم سے نکاح کرنے سے پہلے تہاری ماں سے جماع کیا تھا تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا اور دونوں میں جدائی کرا دی جائے گی لیکن اس عورت کا پورا مہر ( جو نکاح کے وقت متعین ہوا تھا) واجب ہوگا عقد واجب نہیں ہوگا اور اس اقرار کے لئے مداومت شرط نہیں یعنی صرف ایک مرتبہ اقرار کرلینا کافی ہے بار بار اقرار کرنا ضروری نہیں ہے اسی لئے اگر کوئی شخص اپنے اقرار سے رجوع کرلے یعنی ایک مرتبہ اقرار کرنے کے بعد پھر انکار کر دے تو قاضی اس نکاح کو صحیح تسلیم نہیں کرے گا ہاں اگر اس نے واقعۃً غلط اقرار کیا تھا تو عند اللہ وہ عورت اس کی بیوی رہے گی اگرچہ ظاہرًا قاضی جدائی کرا دے گا۔ اگر کسی شخص نے ایک عورت کے بارے میں یہ کہا کہ میری رضاعی ماں ہے ( یعنی اس عورت نے مجھے دود ھ پلایا ہے) اور پھر کچھ عرصہ بعد جب اس عورت سے نکاح کرنا چاہے اور یہ کہے کہ میں نے پہلے غلط کہا تھا کہ یہ میری رضاعی ماں ہے تو اس صورت میں اس کے لئے اس عورت سے نکاح کرنا استحسانا جائز ہوگا۔ اگر کسی شخص نے عورت کا بوسہ لیا اور پھر کہنے لگا کہ یہ شہوت کے ساتھ نہیں تھا یا عورت کو چھوا اور یا اس کی شرم گاہ کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ شہوت کے ساتھ نہیں تھا تو بوسہ لینے کی صورت میں تو فورًا حرمت کا حکم لگا دیا جائے گا جب تک کہ یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس نے واقعی شہوت کے ساتھ بوسہ نہیں لیا تھا اور دوسری دونوں صورتوں میں حرمت کا حکم فورًا لگا دیا جائے گا جب یہ یقین ہوجائے کہ یہ چیز شہوت کے ساتھ سرزد ہوئی ہے تو حرمت کا حکم لگایا جائے گا اور یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ بوسہ عام طور پر شہوت کے ساتھ لیا جاتا ہے اور بوسہ کی بنیاد ہی شہوت پر ہوتی ہے بخلاف چھونے اور دیکھنے کے کہ یہ دونوں فعل بغیر شہوت کے بھی سرزد ہوتے ہیں مگر یہ حکم اس صورت میں ہے کہ جب کہ شرمگاہ کے علاوہ کسی اور عضو کو چھوا ہو اور اگر کسی شخص نے عورت کی شرمگاہ کو چھوا ہو اور پھر کہا کہ یہ شہوت کے ساتھ نہیں تھا تو ایسی صورت میں اس کی بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اگر کسی شخص نے عورت کی چھاتی پکڑ لی اور کہا کہ شہوت کے ساتھ نہیں پکڑی تھی تو اس کی بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اسی طرح اگر عورت کے ساتھ جانور پر سوار ہوا تو اس کا بھی یہی حکم ہے کہ ہاں اگر عورت کی پشت پر سوار ہو کر دریا کو پار کیا اور کہا کہ اس وقت شہوت نہیں تھی تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔ ایک شخص نے لوگوں کے سامنے اقرار کیا کہ میں نے فلاں عورت کو شہوت کے ساتھ چھوا ہے یا اس کا بوسہ لیا ہے اور ان لوگوں نے اس کے اس اقرار کی گواہی دی تو اس کی گواہی قبول کی جائے گی اور حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی اسی طرح اگر گواہ یہ کہیں کہ فلاں شخص نے فلاں عورت کو شہوت کے ساتھ ہاتھ لگایا تھا یا بوسہ لیا تھا تو ان کی گواہی مانی جائے گی کیونکہ شہوت ایک ایسی چیز ہے جو فی الجملہ معلوم ہوجاتی ہے چناچہ جن لوگوں کے عضو میں حرکت ہوتی ہے اس کو دیکھ کر اور جن کے عضو میں حرکت نہیں ہوتی ان کے بارے میں دوسری علامتوں سے شہوت کا معلوم ہوجانا ممکن ہوتا ہے۔ قاضی علی سعدی فرماتے ہیں کہ اگر نشہ میں مدہوش کسی شخص نے اپنی لڑکی کو پکڑ کر اپنے بدن سے لپٹایا اور اس کا بوسہ لیا اور پھر جب اس سے جماع کرنے کا ارادہ کیا تو لڑکی نے کہا کہ میں تمہاری لڑکی ہوں، یہ سن کر اس شخص نے لڑکی کو چھوڑ دیا تو اس صورت میں بھی لڑکی کی ماں یعنی اس شخص کی بیوی اس کے لئے حرام ہوجائے گی۔ اگر کسی شخص سے پوچھا گیا کہ تم نے اپنی ساس کے ساتھ کیا کیا ہے؟ اس نے جواب میں کہا کہ میں نے جماع کیا ہے تو اس صورت میں بھی حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی اگرچہ سوال کرنے والے نے مذاق میں سوال کیا ہو اور اس شخص نے بھی ازراہ مذاق ہی جواب دیا ہو پھر اس کے بعد وہ شخص لاکھ کہے کہ میں نے یہ بات غلط کہی تھی اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اگر کسی شخص نے کسی ایسی لونڈی کے بارے میں جو اس کی ملکیت میں ہو یہ کہا کہ میں نے اس لونڈی سے جماع کیا ہے تو وہ لونڈی اس کے لڑکے کے لئے حلال نہیں ہوگی اور اگر اس نے کسی ایسی لونڈی کے بارے میں جو اس کی ملکیت نہیں ہے بلکہ کسی اور کی ہے یہ کہا کہ میں نے اس سے جماع کیا ہے تو اس صورت میں اس کے لڑکے کے لئے یہ جائز ہوگا کہ اپنے باپ کی اس بات کا اعتبار نہ کرے اور اس لونڈی کو اپنی ملکیت میں لے کر اس سے جماع کرلے اور اگر کسی شخص کو اپنے باپ کی میراث میں کوئی لونڈی ملی تو وہ اس سے جماع کرسکتا ہے جب تک کہ یقین کے ساتھ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ باپ نے اس لونڈی کے ساتھ جماع کیا ہے۔ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے اس شرط پر شادی کی کہ وہ باکرہ ہے لیکن شادی کے بعد جب اس سے جماع کرنے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ باکرہ نہیں ہے پھر اس نے عورت سے پوچھا کہ تہارا پردہ بکارۃ کس طرح زائل ہوا ہے ( یعنی تمہارے ساتھ کسی مرد نے جماع کیا ہے؟ ) عورت نے جواب دیا کہ تمہارے باپ نے اس صورت میں اگر وہ شخص خاوند اس کی بات کا اعتبار کرے تو نکاح ختم ہوجائے گا۔ اور عورت مہر کی حقدار نہیں ہوگی۔ اور اگر وہ شخص اس کی بات کا اعتبار نہ کرے اور کہے کہ تم جھوٹ بولتی ہو تو نکاح باقی رہے گا۔ اگر کسی عورت نے اپنے شوہر کے لڑکے کے بارے میں کہا کہ اس نے مجھے شہوت کے ساتھ چھوا ہے لہذا میں اپنے شوہر کی بیوی نہیں رہی تو عورت کی اس بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ شوہر کے لڑکے کا قول معتبر ہوگا۔ کسی شخص نے اپنے باپ کی بیوی کا شہوت کے ساتھ زبردستی بوسہ لیا یا کسی باپ نے اپنے لڑکے کی بیوی کا شہوت کے ساتھ زبردستی بوسہ لیا اور شوہر نے کہا کہ یہ عمل شہوت کے ساتھ نہیں تھا تو شوہر کی بات کا اعتبار کیا جائے گا اور یہ اسی کی بیوی رہے گی لیکن اگر شوہر نے اس بات کو تسلیم کرلیا کہ بوسہ لینا واقعی شہوت ہی کے ساتھ تھا تو پھر دونوں میاں بیوی) میں جدائی ہوجائے گی اور شوہر پر مہر واجب ہوگا مگر شوہر وہ رقم جو اس نے مہر میں ادا کی ہے اس شخص سے وصول کرلے گا جس کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے بشرطیکہ اس نے فتنہ پھیلانے کے لئے یہ حرکت کی ہو اور اگر یہ حرکت فتنہ پھیلانے کے مقصد سے نہیں تھی تو پھر کچھ بھی وصول کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ اور اگر اس مسئلہ میں بوسہ لینے کی بجائے باپ نے لڑکے کی بیوی سے یا لڑکے نے باپ کی بیوی سے جماع کرلیا تو اس صورت میں شوہر مہر میں دی ہوئی رقم کسی طرح بھی وصول نہیں کرسکتا کیونکہ جماع کرنیوالے پر حد واجب ہوگی اور ضابطہ یہ ہے کہ شرعی حد کے ساتھ کوئی مالی جرمانہ واجب نہیں ہوتا۔ کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کی باندی کے ساتھ نکاح کیا اور پھر اس کے قبل کہ اس کا خاوند جماع کرتا باندی نے شوہر کے لڑکے کا شہوت کے ساتھ بوسہ لیا خاوند نے دعوی کیا کہ میری بیوی نے میرے لڑکے کا بوسہ شہوت کے ساتھ لیا ہے مگر باندی کے آقا نے کہا کہ یہ غلط ہے، اس صورت میں نکاح ختم ہوجائے گا کیونکہ شوہر نے اس بات کا اقرار کرلیا ہے کہ میری بیوی نے شہوت کے ساتھ بوسہ لیا ہے لیکن شوہر پر پورا مہر واجب نہیں ہوگا بلکہ نصف مہر واجب ہوگا کیونکہ اس باندی کے مالک نے اس کی بات کو جھٹلایا ہے اس بارے میں لونڈی کا قول معتبر نہیں ہوگا کہ میں نے شہوت کے ساتھ بوسہ لیا تھا لہذا میرا پورا مہر دو۔ اگر کسی عورت نے لڑائی جھگڑے میں اپنے دادا کا عضو مخصوص پکڑ لیا اور کہا کہ میں نے شہوت کے ساتھ نہیں پکڑا تھا تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔ حرمت مصاہرت یا حرمت رضاعت کی وجہ سے نکاح باطل نہیں ہوتا بلکہ فاسد ہوجاتا ہے ( جس کی وجہ سے جماع کرنا حرام ہوجاتا ہے لہذا شوہر کو چاہئے کہ طلاق دیدے اگر وہ طلاق نہ دے تو پھر قاضی دونوں کے درمیان جدائی کرا دے) چناچہ جدائی سے پہلے اگر شوہر نے جماع کرلیا تو اس پر حد واجب نہیں ہوگی خواہ اس نے جماع شبہ میں مبتلا ہو کر ہی کیا ہو یا بغیر شبہ کے کیا ہو۔ اگر کسی شخص نے ایک عورت سے حرام کاری کی یا ایسا کوئی بھی فعل کیا جس سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے جیسے چھونا وغیرہ اور پھر توبہ کرلی تو یہ شخص اس عورت کی لڑکی کا محرم ہی رہے گا اس لئے کہ اس کی لڑکی سے نکاح کرنا اس کے حق میں ہمیشہ کے لئے حرام ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ محرمت، زنا سے ثابت ہوجاتی ہے اور ایسے ہی ان تمام چیزوں سے بھی ثابت ہوجاتی ہے جن سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے جیسے چھونا وغیرہ۔ اگر مثلا زید نے خالدہ سے نکاح کیا اور زید کے لڑکے نے ( جو خالدہ کے پیٹ سے نہیں ہے) خالدہ کی بیٹی سے جو خالدہ کے پہلے شوہر سے ہے) نکاح کرلیا یا خالدہ کی ماں سے نکاح کرلیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر کسی شخص نے عضو مخصوص پر کپڑا لپیٹ کر اپنی بیوی سے جماع کیا تو دیکھا جائے گا کہ وہ کپڑا باریک تھا اور مرد کے عضو مخصوص کو حرارت محسوس ہونے سے نہیں روکتا تھا تو وہ عورت جماع کے بعد پہلے شوہر کے لئے جس نے اسے طلاق مغلظہ دیدی تھی) حلال ہوجائے گی اور اگر کپڑا ایسا تھا جس کی وجہ سے اس کے عضو مخصوص کو حرارت محسوس نہیں ہو رہی تھی تو وہ عورت اپنے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوگی۔
Top