مشکوٰۃ المصابیح - مباشرت کا بیان - حدیث نمبر 3210
عن عروة عن عائشة : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال لها في بريرة : خذيها فأعتقيها . وكان زوجها عبدا فخيرها رسول الله صلى الله عليه و سلم فاختارت نفسها ولو كان حرا لم يخيرها (2/225) 3199 - [ 2 ] ( صحيح ) وعن ابن عباس قال : كان زوج بريرة عبدا أسود يقال له مغيث كأني أنظر إليه يطوف خلفها في سكك المدينة يبكي ودموعه تسيل على لحيته فقال النبي صلى الله عليه و سلم للعباس : يا عباس ألا تعجب من حب مغيث بريرة ؟ ومن بغض بريرة مغيثا ؟ فقال النبي صلى الله عليه و سلم : لو راجعته فقالت : يا رسول الله تأمرني ؟ قال : إنما أشفع قالت : لا حاجة لي فيه . رواه البخاري
لونڈی آزاد ہونے کے بعد اپنا نکاح فسخ کرسکتی ہے
حضرت عروہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ان یعنی (حضرت عائشہ) سے بریرہ کے بارے میں فرمایا کہ اسے خرید لو اور پھر اس کو آزاد کردو اور بریرہ کا خاوند چونکہ غلام تھا اس لئے آنحضرت نے اسے اختیار دے دیا تھا اور بریرہ نے اس اختیار کے مطابق اپنے آپ کو اپنے خاوند سے علیحدہ کرلیا تھا۔ اور اگر اس کا خاوند آزاد ہوتا تو آپ ﷺ اسے یہ اختیار نہ دیتے ( بخاری ومسلم)

تشریح
بریرہ کا مذکورہ بالا واقعہ تفصیلی طور پر کتاب البیوع میں گزر چکا ہے یہ بطور لونڈی ایک یہودی کی ملکیت میں تھیں پھر حضرت عائشہ نے ان کو خرید کر آزاد کردیا تھا چناچہ بریرہ کی خریداری کے وقت آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ فرمایا کہ پہلے اسے اس کے مالکوں سے خرید لو اور پھر اس کو آزاد کردو آپ ﷺ کے ارشاد کے مطابق حضرت عائشہ نے اسے خریدا اور پھر آزاد کردیا، بریرہ کا خاوند چونکہ غلام تھا اس لئے آنحضرت ﷺ نے بریرہ کو یہ اختیار دیدیا تھا کہ آزاد ہونے کے بعد اگر چاہو تو تم اپنے خاوند کے نکاح میں حسب سابق رہو اور اگر اس کے نکاح میں رہنا نہ چاہو تو اس سے علیحدہ ہوجاؤ، اس اختیار کے پیش نظر بریرہ نے علیحدگی کو اختیار کیا اور اپنے خاوند سے قطع تعلق کرلیا۔ حدیث کا آخری جملہ (ولو کان حرا) الخ اور اگر اس کا خاوند آزاد ہوتا الخ بظاہر حضرت عروہ کا اپنا قول معلوم ہوتا ہے اور ائمہ ثلثہ یعنی حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے کہ لونڈی کو آزاد ہونے کے بعد اپنے نکاح کو باقی یا فسخ کرنے کا اختیار اسی صورت میں ہوتا ہے جب کہ اس کا خاوند غلام ہوتا کہ وہ آزاد ہوجانے کے بعد ایک غلام کے نکاح میں رہنے کو عار محسوس نہ کرے، اگر اس کا خاوند غلام نہ ہو تو پھر اسے یہ اختیار حاصل نہیں ہوگا لیکن حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اسے بہرصورت یہ اختیار حاصل ہوتا ہے، خواہ اس کا شوہر غلام ہو یا آزاد ہو۔ دونوں طرف کے علماء کی دلیلیں فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ اور اگر میاں بیوی دونوں ایک ساتھ آزاد ہوں تو تمام علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اس صورت میں بیوی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہوتا اسی طرح اگر شوہر آزاد ہوجائے تو اسے اپنا نکاح باقی رکھنے یا فسخ کردینے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ خواہ اس کی بیوی آزاد ہو یا لونڈی ہو۔ اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ بریرہ کا شوہر ایک سیاہ فام تھا جس کو مغیث کہا جاتا تھا میری آنکھوں کے سامنے اب بھی وہ منظر ہے جب وہ بریرہ کے پیچھے پیچھے مدینہ کی گلیوں میں روتا پھرتا تھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک ٹپک کر اس کی داڑھی پر گرتے تھے چناچہ ایک دن آنحضرت ﷺ نے حضرت عباس سے فرمایا کہ عباس کیا تمہیں اس پر حیرت نہیں ہے کہ مغیث بریرہ کو کتنا چاہتا ہے اور بریرہ مغیث سے کتنا نفرت کرتی ہے؟ پھر آپ ﷺ نے بریرہ سے بھی فرمایا کہ بریرہ کاش تم مغیث سے رجوع کرتیں (یعنی مغیث سے دوبارہ نکاح کرلیتیں) بریرہ نے عرض کیا کہ یا رسو اللہ ﷺ کیا آپ مجھے بطور وجوب اس کا حکم دے رہے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ بریرہ میں تو سفارش کر رہا ہوں یعنی بطور وجوب نہیں بلکہ بطریق استحباب تمہیں حکم دے رہا ہوں بریرہ نے کہا کہ مجھے اس سے رجوع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے (یعنی مجھے اس کے پاس رہنا منظور نہیں ہے) (بخاری) تشریح چونکہ بعض روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مغیث یعنی بریرہ کا شوہر آزد تھا اس لئے اگر اس حدیث کے ابتدائی جملہ کی یہ وضاحت کی جائے کہ مغیث بد صورتی میں ایک سیاہ فام غلام کی مانند تھا یا یہ کہ مغیث پہلے تو غلام تھا جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے لیکن پھر آزاد کیا گیا اور وہ آزاد ہوگیا تو اس صورت میں رواتیوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں رہے گا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سردار حاکم کو اپی رعایا سے کسی کے حق میں جائز کام کی سفارش کرنا ایک اچھی بات ہے اسی طرح حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ اپنے سردار حاکم کی سفارش کو قبول کرنا واجب نہیں ہے اور نہ اس سفارش کو نہ ماننے کی وجہ سے اس سے سردار حاکم کو کوئی مؤ اخذہ کرنے کا حق حاصل ہے نیز حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی سے اس کی بدصورتی و بدخلقی کی وجہ سے تعلق نہ رکھنا جائز ہے۔
Top