مشکوٰۃ المصابیح - باری مقرر کرنے کا بیان - حدیث نمبر 3251
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا يفرك مؤمن مؤمنة إن كره منها خلقا رضي منها آخر . رواه مسلم
عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرو
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے بغض نہ رکھے اگر اس کی نظر میں اس عورت کی کوئی خصلت و عادت ناپسندیدہ ہوگی تو کوئی دوسری خصلت و عادت پسندیدہ بھی ہوگی (مسلم)

تشریح
حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ کسی انسان کے تمام افعال و خصائل برے نہیں ہوتے بلکہ اگر اس کے کچھ افعال و خصائل برے ہوتے ہیں تو اس میں کچھ اچھی عادتیں اور اچھے خصائل بھی ہوتے ہیں لہٰذا ہر مسلمان مرد کو چاہئے کہ وہ اپنی عورت کے ان اچھے افعال و اخلاق کو پیش نظر رکھے جو اس کی نظر میں پسندیدہ ہیں اور جو افعال و اخلاق برے ہوں ان پر صبر و تحمل کرے گویا اس ارشاد کا مقصد اس بات کی ترغیب دلانا ہے کہ عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرو ان کی معیت میں خوشگوار و پُرمسرت زندگی گزارنے کی کوشش کرو اور اگر ان کی طرف سے کوئی ایسی کوتاہی یا غلطی ہوجائے یا ان میں کوئی ایسی بری عادت و خصلت ہو جس سے تکلیف پہنچتی ہے تو اس تکلیف پر صبر کرو۔ اس حدیث میں ایک بہت بڑے لطیف نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ بےعیب یار اور اپنے مزاج کے بالکل موافق ہاتھ نہیں لگا کرتا۔ اگر کوئی شخص بالکل بےعیب یار ڈھونڈھنے لگے تو وہ ہمیشہ بےیار ہی رہے گا کیونکہ ایسا کوئی انسان نہیں ہے جس میں کوئی عیب اور کوئی ناپسندیدہ بات نہ ہو اس طرح کوئی انسان خصوصاً مسلمان اچھے خصائل اور اچھی عادتوں سے بالکل بھی خالی نہیں ہوتا لہٰذا عقل کا تقاضا یہی ہونا چاہئے کہ اس کے ان اچھے خصائل کو تو پیش نظر رکھا جائے اور برے خصائل سے چشم پوشی کی جائے۔
Top