مشکوٰۃ المصابیح - باری مقرر کرنے کا بیان - حدیث نمبر 3272
وعن إياس بن عبد الله قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تضربوا إماء الله فجاء عمر إلى رسول الله فقال : ذئرن النساء على أزواجهن فرخص في ضربهن فأطاف بآل رسول الله صلى الله عليه و سلم نساء كثير يشكون أزواجهن فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لقد طاف بآل محمد نساء كثير يشكون أزواجهن ليس أولئك بخياركم . رواه أبو داود وابن ماجه والدارمي
عورتوں کو مارنے کی ممانعت
اور حضرت ایاس ابن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی لونڈیوں ( یعنی اپنی بیویوں) کو نہ مارو پھر اس حکم کے کچھ دنوں بعد حضرت عمر رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ ﷺ نے چونکہ عورتوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے اس لئے عورتیں اپنے خاوندوں پر دلیر ہوگئیں ہیں آپ ﷺ نے عورتوں کو مارنے کی اجازت عطا فرما دی اس کے بعد بہت سی عورتیں رسول کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے پاس جمع ہوئیں اور اپنے خاوندوں کی شکایت کی کہ وہ ان کو مارتے ہیں رسول کریم ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ محمد ﷺ کی بیویوں کے پاس بہت سی عورتیں اپنے خاوندوں کی شکایت لے کر آئی ہیں یہ لوگ جو اپنی بیویوں کو مارتے ہیں تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں ( ابوداؤد ابن ماجہ دارمی)

تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنی بیویوں کو مارتے ہیں یا مطلق مارتے ہیں تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں بلکہ بہتر لوگ وہی ہیں جو اپنی بیویوں کو نہیں مارتے ان کی ایذاء اور تکلیف دہی پر صبر و تحمل کرتے ہیں یا ان کو اتنا زیادہ نہیں مارتے جو ان کی شکایت کا باعث ہو بلکہ بطور تادیب تھوڑا سا مارتے ہیں۔ شرح السن میں لکھا ہے کہ اس روایت سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی بیوی اپنے شوہر کے حقوق نکاح کی ادائیگی سے انکار کرے تو اس کو مارنا مباح ہے لیکن بہت نہیں مارنا چاہئے۔ پچھلے صفحات میں حضرت حکیم ابن معاویہ کی جو روایت ٢٠ گزری ہے اور اس کی تشریح میں جو آیت نقل کی گئی ہے اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بطور تادیب اپنی بیویوں کو مارنے کی اجازت دی گئی ہے جب کہ اس روایت سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی؟ گویا دونوں میں بظاہر تضاد وتعارض معلوم ہوتا ہے لہذا اس تضاد وتعارض کو حضرت امام شافعی سے منقول اس وجہ تطبیق کے ذریعہ ختم کیا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے عورتوں کو مارنے سے منع کیا ہوگا پھر جب عورتیں شوہروں پر غالب ہوگئیں اور ان کی جرات ودلیری بڑھ گئی تو آپ ﷺ نے ان کو مارنے کی اجازت دیدی اور آپ ﷺ کے حکم کی توثیق میں یہ آیت نازل ہوئی لیکن اس کے بعد جب عورتوں کی طرف سے یہ شکایت کی گئی کہ ان کے خاوند ان کو بہت مارتے ہیں تو آپ نے اعلان کیا کہ اگرچہ بیوی کی بداطواری پر اس کو مارنا مباح ہے لیکن اس کی بداطواری پر صبر و تحمل کرنا اور ان کو نہ مارنا ہی بہتر و افضل ہے۔
Top