Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (3344 - 3425)
Select Hadith
3344
3345
3346
3347
3348
3349
3350
3351
3352
3353
3354
3355
3356
3357
3358
3359
3360
3361
3362
3363
3364
3365
3366
3367
3368
3369
3370
3371
3372
3373
3374
3375
3376
3377
3378
3379
3380
3381
3382
3383
3384
3385
3386
3387
3388
3389
3390
3391
3392
3393
3394
3395
3396
3397
3398
3399
3400
3401
3402
3403
3404
3405
3406
3407
3408
3409
3410
3411
3412
3413
3414
3415
3416
3417
3418
3419
3420
3421
3422
3423
3424
3425
مشکوٰۃ المصابیح - نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان - حدیث نمبر 5786
واقعہ معراج کا ذکر
دودھ فطرت ہے الخ فطرت دین سے مراد دین اسلام ہے جس کو حق تعالیٰ نے ہر انسان کی پیدائش وخلقت کی بنیاد ہے۔ دودھ اور فطرت یعنی دین اسلام میں مماثلت و مناسبت یہ ہے کہ جس طرح دین اسلام انسان کی رواحانی اور اعتقادی تخلیق کی خشت اول ہے اسی طرح دودھ انسان کی جسمانی پرورش اور اٹھان کا بنیادی عنصر ہے، یہ دودھ ہی ہوتا ہے جس سے آدمی کی پیدائش ہوتے ہی پرورش شروع ہوجاتی ہے اور پھر دودھ میں جو فطری خوبیاں، لطافت و پاکیزگی، شیرین ومنفعت اور خوشگواری ہے، اس سے دین فطرت یعنی اسلام کو بہت مناسبت حاصل ہے، اسی لئے عالم بالا میں دین اور علم کی مثال دودھ کو قرار دیا گیا ہے اور علماء کہتے ہیں اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ وہ دودھ پی رہا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہوگی کہ اس شخص کو دین اور علم سے بہت زیادہ حصہ اور بیشمار فوائد حاصل ہوں گے۔ تم اور تماری امت کے لوگ اس فطرت پر رہیں گے۔ یہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی طرف سے بشارت تھی کہ آپ ﷺ نے چونکہ دودھ کے پیالہ کو اختیار فرمایا اس لئے ثابت ہوگیا کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کی امت کے لوگ دین اور علم کی راہ پر گامزن رہیں گے دودھ کے مقابلہ پر شراب ہے، جو ہر برائی کی جڑ بتائی گئی ہے اور آپ ﷺ نے اس کو ترک کر کے گویا اپنی امت کے لوگوں کو بالعموم برائی کے راستہ پر جانے سے روک دیا ہے، چناچہ ایک حدیث میں یہ منقول ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے یہ بھی کہا تھا اگر آپ شر اب کا پیالہ لے لیتے تو پھر آپ کی امت فتنہ و فساد یعنی تمام خرابیوں کی جڑ پڑجاتی واضح رہے کہ ( معراج کا واقعہ) جس زمانہ کا ہے اس وقت شراب پینا مباح تھا، خصوصا شراب جنت ( جو آپ ﷺ کو اس موقع پر پیش کی گئی، کی حیثیت دوسری تھی لیکن اس کے باوجود عالم بالا میں جس چیز کو برائی اور خرابی کی جڑ قرار دیا گیا وہ شراب ہی ہے۔ اب رہ گئی شہد کی بات، تو اگرچہ شہد بھی ایک لطیف اور پاکیزہ چیز ہے اور اس کو شفا کا ذریعہ بھی بتایا گیا ہے لیکن اس کی لطافت و پاکیزگی اور خوشگواری چونکہ دودھ سے بڑھ کر نہیں، بلکہ اس سے کم ہی ہے اور اس کی حیثیت بھی دودھ کی بہ نسبت غیر اہم ہے، اس لئے آپ ﷺ نے دودھ کے مقابلہ پر شہد کو بھی ترجیع نہیں دی۔ ویسے آگے جو حدیث آرہی ہے اس میں شہد کا ذکر بھی نہیں ہے، صرف دودھ اور شراب کے پیالوں کا ذکر ہے۔ نیز اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ چیزوں کے پیالے آپ ﷺ کے سامنے اس وقت پیش کئے گئے جب آپ ﷺ سدرۃ المنتہی کے پاس تھے جب کہ آگے آنے والی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ پیالے آپ ﷺ کے سامنے بیت المقدس میں پیش کئے گئے، لہذا علماء نے لکھا ہے کہ یہ پیالے آپ ﷺ کے سامنے دو مرتبہ پیش کئے گئے تھے، ایک مرتبہ مسجد اقصی میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد، اس وقت صرف دو پیالے آپ ﷺ کے سامنے پیش کئے گئے یعنی ایک دودھ کا اور ایک شراب کا، جیسا کہ اگلی حدیث میں ذکر ہے اور دوسری مرتبہ آسمان پر ( سدرۃ المنتہی کے پاس) تین پیالے پیش کئے گئے جن میں سے ایک دودھ کا تھا، ایک میں شہد تھا اور ایک میں شراب تھی۔ تم پھر پروردگار کے پاس جاؤ اور اپنی امت کے لئے ( پانچ نمازوں میں بھی) تخفیف کی درخواست کرو۔ کے تحت خطابی نے کہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا آنحضرت ﷺ کو باربار اللہ تعالیٰ کے پاس بھیجنا اور ان کے مشورہ پر آنحضرت ﷺ کا اللہ تعالیٰ سے نمازوں کی تعداد میں تخفیف کی درخواست کرنا اس بات کی علامت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلے ہی معلوم ہوچکا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نمازوں کی فرضیت کا جو ابتدائی حکم صادر ہوا ہے وہ وجوب قطعی کے طور پر نہیں ہے، اس میں تبدیلی کی گنجائش ہے۔ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بات معلوم نہ ہوتی تو وہ بار بار تخفیف کی درخواست کا مشورہ نہ دیتے، نیز آنحضرت ﷺ کی طرف سے بار بار درخواست پیش کرنا اور ہر مرتبہ اس درخواست کا منظور ہونا بھی اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پہلا حکم قطعًا وجوب کے طور پر نہیں تھا کیونکہ جو حکم وجوب قطعی کے طور پر جاری ہوتا ہے اس میں تخفیف کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ملا علی قاری نے خطابی کے اس قول کو طیبی کے حوالہ سے نقل کرنے کے بعد اپنی طرف سے جو کچھ لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ان کے نزدیک خطابی کی بات وزن دار نہیں ہے، ان کا کہنا ہے کہ تخفیف کی درخواست کرنا اصل میں علامت ہی اس بات کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم وجوب کے طور پر تھا، کیونکہ جو چیز واجب نہ ہو اس میں تخفیف کی درخواست کی ضرورت پیش نہیں آتی، لہٰذا اس سلسلہ میں صحیح بات وہی ہے جو بعض حضرات نے نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے پچاس نمازیں ہی فرش کی تھیں پھر اپنے بندوں کے حال پر رحم کرتے ہوئے تخفیف کی درخواست قبول فرمائی اور پچاس نمازوں کے حکم کو منسوخ کر کے پانچ نمازوں کا حکم جاری ونافذ فرمایا جیسا کہ اور بعض احکام میں بھی تبدیلی ومنسوخی کا عمل ہوا ہے۔
Top