مشکوٰۃ المصابیح - قصاص کا بیان - حدیث نمبر 3430
وعن المقداد بن الأسود أنه قال : يا رسول الله أرأيت إن لقيت رجلا من الكفار فاقتتلنا فضرب إحدى يدي بالسيف فقطعهما ثم لاذ مني بشجرة فقال : أسلمت لله وفي رواية : فلما أهويت لأقتله قال : لا إله إلا الله أأقتله بعد أن قالها ؟ قال : لا تقتله فقال : يا رسول الله إنه قطع إحدى يدي فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تقتله فإن قتلته فإنه بمنزلتك قبل أن تقتله وإنك بمنزلته قبل أن يقول كلمته التي قال (2/285) 3450 - [ 5 ] ( متفق عليه )
جس شخص نے کلمہ پڑھ لیا وہ معصوم الدم ہوگیا
اور حضرت مقداد ابن اسود سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے بتائیے کہ اگر (مجھے کوئی کافر مل جائے) اور ہمارے درمیان لڑائی چھڑ جائے اور وہ کافر میرے ہاتھ پر تلوار کا وار کر کے کاٹ دے اور پھر ایک درخت کی آڑ میں مجھ سے پناہ پکڑ کر یہ کہے کہ میں اللہ کے لئے مسلمان ہوگیا۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اور جوں ہی میں اس کو مار ڈالنے کا ارادہ کروں تو وہ کہے کہ لا الہ الا اللہ تو کیا میں اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلنے کے بعد اس کو قتل کرسکتا ہوں؟ آنحضرت فرمایا نہیں اس کو قتل نہ کرو مقداد نے عرض کیا یا رسول اللہ اس نے جو میرا ایک ہاتھ کاٹ ڈالا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا (اس کے باوجود) اس کو قتل نہ کرو کیونکہ اگر تم اس کو قتل کرو گے تو وہ اس جگہ پہنچ جائے گا، جہاں تم اس کو قتل کرنے سے پہلے تھے اور تم اس جگہ پہنچ جاؤ گے جہاں وہ کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے اس کو کلمہ پڑھنے کے بعد قتل کردیا تو جس طرح تم نے اس کو قتل کرنے سے پہلے معصوم الدم تھے اب وہ اسلام لانے کی وجہ سے معصوم الدم ہوگیا اور جس طرح وہ کلمہ اسلام پڑھنے سے پہلے غیر معصوم الدم تھا اب تم اس کو قتل کردینے کی وجہ سے غیر معصوم الدم ہوگئے۔ اس کو مزید وضاحت کے ساتھ یوں کہا جاسکتا ہے کہ کلمہ اسلام پڑھنے سے پہلے اس شخص کو اس کے کافر ہونے کی وجہ سے قتل کردینا درست تھا اب اس کے مسلمان ہوجانے کے بعد اس کو قتل کردینے کی وجہ سے تمہیں قتل کردینا درست ہوگا۔
Top