مشکوٰۃ المصابیح - امارت وقضا کا بیان - حدیث نمبر 3624
وعن عرفجة قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : إنه سيكون هنات وهنات فمن أراد أن يفرق أمر هذه الأمة وهي جميع فاضربوه بالسيف كائنا من كان . رواه مسلم (2/337) 3678 - [ 18 ] ( صحيح ) وعنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : من أتاكم وأمركم جميع على رجل واحد يريد أن يشق عصاكم أو يفرق جماعتكم فاقتلوه . رواه مسلم (2/337) 3679 - [ 19 ] ( صحيح ) وعن عبد الله بن عمرو قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من بايع إماما فأعطاه صفقة يده وثمرة قلبه فليطعه إن استطاع فإن جاء آخر ينازعه فاضربوا عنق الآخر . رواه مسلم
جو شخص امت میں تفرقہ پیدا کرے اس کو موت کے گھاٹ اتار دو
اور حضرت عرفجہ کہتے ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب تخریب و فساد رونما ہوں گے لہٰذا جو شخص اس میں تفریق پیدا کرنا چاہے درا نحالی کہ امت آپس میں متحد ومتفق ہو تو اس شخص کو تلوار سے اڑا دو خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ (مسلم)

تشریح
عنقریب تخریب و فساد رونما ہوں گے کا مطلب یہ ہے کہ جوں جوں زمانہ گذرتا جائے گا توں توں دین کے مخالف اور دشمن طاقتوں کی فتنہ پردازیاں بڑھتی جائیں گی، وہ مختلف طریقے سے امت میں انتشار پیدا کر کے تخریب و فساد کے شعلے بھڑکائیں گے وہ کوشش کریں گے کہ ملت اسلامیہ کے درمیان سے اتحاد و اتفاق کی رو کو نکال لیں اور چونکہ امارت وسیادت انسان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے اس لئے کچھ مسلمان اس انسانی کمزوری سے مجبور ہو کر ان کی سازشوں کا شکار ہوجائیں گے اور طلب امارت و حصول جاہ کے لئے مسلم مخالف طاقتوں کا آلہ کار بن کر طرح طرح کے فتنوں کو جگائیں گے۔ جس کا انجام یہ ہوگا کہ تمام بدامنی و انتشار کی فضا پیدا ہوجائے گی اور امت گروہ بندیوں اور تفرقوں کا شکار ہوجائے گی۔ ایسے وقت میں مسلمانوں کو چاہئے کو جو شخص پہلے سے ان کی قیادت کے مرتبہ پر فائز ہے اور جس کو وہ شروع میں اپنا مرجع اطاعت بنا چکے ہیں اسی کے جھنڈے کے نیچے جمع رہیں اور پہلے سے ان کی قیادت میں ہر اس طبقہ اور فرد کے فتنوں کی سرکوبی کریں جو امت کے اتحاد و اتفاق میں رخنہ اندازی کر رہا ہو، کیونکہ (اصل میں امیر و خلیفہ وہی شخص ہے اور اسی کی قیادت قابل اطاعت ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو کے ذریعے اس حقیقت کو طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ امت کا اتحاد، فرد کی حیثیت و شخصیت پر مقدم ہے اگر امت کے اتحاد اور ملت کی اجتماعی حیثیت کو بچانے کے لئے کسی بھی بڑے سے بڑے فرد کو راستہ سے ہٹانا پڑے تو اس میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرنی چاہئے خواہ وہ شخص کتنا ہی کوئی بڑا عالم کیوں نہ ہو۔ اور دیکھنے میں کتنا ہی بڑا شیخ طریقت اور کتنا ہی معزز و حیثیت دار کیوں نہ ہو بلکہ یہاں تک ملحوظ رہنا چاہئے کہ اگر کوئی شخص امارت وسیادت کا دعوی کرے جو حقیقت میں بھی اس منصب کا زیادہ سے زیادہ اہل ہے تو علماء لکھتے ہیں کہ اس کو قتل کردینا چاہئے کیونکہ فتنہ و فساد اور امت میں تفریق پیدا کرنے کا باعث ہونے کی وجہ سے وہ قتل ہی کا مستحق ہے بشرطیکہ جو شخص پہلے منصب امارت و امامت پر فائز ہے وہ اپنے منصب کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا اہل ہو اور اس کو معزول کرنے کی کوئی وجہ نہ ہو۔ اور حضرت عرفجہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص (امام وقت کے خلاف بغاوت کر کے اور اپنی خلافت وامارت کا اعلان کر کے) تمہارے پاس آئے در آنحالیکہ تم سب ( پہلے سے) ایک شخص پر متفق اور ایک خلیفہ پر متحد ہو اور وہ شخص تمہاری لاٹھی کو چیرے یا تمہاری اجتماعی تنظیم میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتا ہو تو تم اس کو قتل کردو۔ (مسلم ) تشریح لاٹھی چیرنے کو کنایۃ مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کے مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے، گویا مسلمانوں کے اتفاق واتحاق و اتحاد اور کسی ایک رائے پر مجتمع ہوجانے کو لاٹھی سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس، اتفاق و اتحاد اور اجتماعیت میں رخنہ اندازی کو چیرنے کا مفہوم دیا گیا ہے۔ (او یفرق جماعتکم) (یا تمہاری اجتماعی تنظیم میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتا ہو) بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں راوی نے اپنے شک کو ظاہر کیا ہے۔ کہ آنحضرت ﷺ نے یا تو پہلا جملہ (ان یشق عصاکم) ( ارشاد فرمایا تھا یا یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا، لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ دونوں ہی جملے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمائے تھے، اس صورت میں پہلے جملہ کو دنیاوی امور یعنی مسلمانوں کی سیاسی طاقت میں انتشار پیدا کرنے پر محمول کیا جائے اور دوسرے جملہ کو دینی احکام یعنی مسلمانوں کی زندگی اور ان کے مذہبی معاملات میں فتنہ پردازی پر محمول کیا جائے اور حضرت عبداللہ ابن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے امام سے بیعت کی بایں طور کہ اس کو اپنا ہاتھ دے کر اطاعت و فرمانبرداری کرے اور پھر اگر کوئی دوسرا شخص اپنی امامت کا اعلان کر دے اور اپنے امام کے خلاف بغاوت کرے تو اس کی گردن اڑا دو۔ (مسلم )
Top