مشکوٰۃ المصابیح - امارت وقضا کا بیان - حدیث نمبر 3647
ظالم حکمران کے سامنے حق گوئی کا انداز
شیخ ابوحامد نے احیا میں لکھا ہے کہ بادشاہ وحکمران کو امر بالمعروف یہ ہے کہ اس کی بےراہ روی سے روکا جائے اور اس کے جو اعمال و افعال مبنی بر غلط ہوں۔ ان کو اس پر واضح کیا جائے یعنی اسے یہ بتایا جائے یعنی یہ بتایا جائے کہ تمہارے یہ کام عدل و انصاف کے خلاف ہے، تمہارا یہ فیصلہ یا یہ فرمان، قانون اور نظام حکمرانی کے مطابق نہیں ہے اور تمہارا یہ فعل دین و اخلاق اور اللہ کے حکم کے منافی ہے، لیکن رعایا کے کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ حکمران کو اس کے غلط کام وفعل سے تشدد کے ذریعہ روکے کیونکہ یہ ملک میں فتنہ و فساد اور قوم میں انتشار وافتراق کا باعث ہوگا اب رہی یہ بات کہ اگر کوئی شخص کسی حکمران کو اس کی غلط روی سے روکنے کے لئے تند وتیز الفاظ، درشت وغضبناک لب و لہجہ اور سخت کلامی اختیار کرے مثلًا وہ اس کو ظالم کہہ کر مخاطب کرے یا یوں کہے (من لایخاف اللہ) (اے اللہ سے نہ ڈرنے والے شخص) وغیرہ وغیرہ تو اس بارے میں یہ مسئلہ ہے کہ اگر اس شخص کا درشت لب و لہجہ اور اس کے تند و تیز الفاظ اس شخص کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لئے بھی اس حکمران کے عتاب کا نشانہ بن جانے کا باعث ہوں تو یہ (سخت کلامی) جائز نہیں۔ اور اگر اس شخص کو اس کا خوف نہیں کہ میری سخت کلامی کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی حکمران کے عتاب کا نشانہ بن جائیں گے بلکہ صرف میری ہی جان پر بنے گی تو یہ جائز ہے بلکہ مستحب ہے کیونکہ سلف (پہلے زمانوں کے مردان حق آگاہ) کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ اپنی جان کی ہلاکت کا خوف لئے بغیر حکمرانوں کو ان کی غلط روی سے پوری پوری سختی سے ٹوکا کرتے تھے اس لئے وہ جانتے تھے کہ اگر وہ اپنی جان کی ہلاکت کا باعث بن گیا تو اس سے بڑی سعادت کیا ہوسکتی ہے۔ کہ جہاد میں شہادت کا درجہ نصیب ہوگا۔
Top