مشکوٰۃ المصابیح - امارت وقضا کا بیان - حدیث نمبر 3653
وعن أبي ذر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ستة أيام اعقل يا أبا ذر ما يقال لك بعد فلما كان اليوم السابع قال : أوصيك بتقوى الله في سر أمرك وعلانيته وإذا أسأت فأحسن ولا تسألن أحدا شيئا وإن سقط سوطك ولا تقبض أمانة ولا تقض بين اثنين
بلاوجہ نہ تو امین بنو اور نہ حاکم بنو
اور حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ چھ دن تک مجھ سے یہ فرماتے رہے کہ ابوذر! بعد میں جو بات تم سے کہی جانے والی ہے اس کے لئے تیار رہو (یعنی آنحضرت ﷺ چھ دن تک مجھے آگاہ کرتے رہے کہ میں تمہیں ایک ہدایت دوں گا تم اس پر خوب غور کرنا اس کو یاد رکھنا اور اس پر عمل کرنا) چناچہ جب سا تو اں دن ہوا تو آپ نے فرمایا میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ظاہر و باطن میں اللہ سے ڈرتے رہنا، جب تم سے کوئی برائی سرزد ہوجائے تو ساتھ ہی نیکی بھی کرنا کیونکہ وہ برائی کو مٹا دیتی ہے یا یہ مقصد ہے کہ اگر تم کسی کے ساتھ کوئی برا سلوک کر بیٹھو تو اس کے ساتھ (نیکی کا) سلوک بھی کرو) کسی (مخلوق) کے آگے دست سوال دراز نہ کرنا اگرچہ تمہارا کوڑا ہی کیوں نہ گرپڑا ہو (یعنی اگر کوڑا گرے تو اس کو اٹھانے کے لئے بھی کسی سے نہ کہو) کسی کی امانت اپنے پاس نہ رکھنا اور دو آدمیوں کے حکم نہ بننا۔۔

تشریح
کسی کے امانت اپنے پاس نہ رکھنا کا مطلب یہ ہے کہ بلاضرورت کسی کی امانت اپنے پاس رکھنا احتیاط اور دور اندیشی کے خلاف ہے کیونکہ نفس کا کوئی بھروسہ نہیں کہ وسوسہ اور شیطان کے فریب میں مبتلا ہوجائے اور امانت میں خیانت کا ارتکاب ہوجائے یا اگر خیانت کا ارتکاب نہ بھی ہو تو یہ چیز تہمت کا محل تو ہے ہی کہ کسی وجہ سے خود امانت کا مالک یا کوئی دوسرا شخص تم پر خیانت کی تہمت لگا دے۔
Top