مشکوٰۃ المصابیح - منصب قضا کی انجام دہی اور اس سے ڈرنے کا بیان - حدیث نمبر 3672
وعن بريدة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : القضاة ثلاثة : واحد في الجنة واثنان في النار فأما الذي في الجنة فرجل عرف الحق فقضى به ورجل عرف الحق فجار في الحكم فهو في النار ورجل قضى للناس على جهل فهو في النار . رواه أبو داود وابن ماجه (2/350) 3736 - [ 6 ] ( ضعيف ) وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من طلب قضاء المسلمين حتى يناله ثم غلب عدله جوره فله الجنة ومن غلب جوره عدله فله النار . رواه أبو داود
جنتی اور دوزخی قاضی!
اور حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں ایک طرح کے تو جنت میں جانے والے اور دو طرح کے دوزخ میں جانے والے! لہٰذا جنت میں جانے والا قاضی تو وہ شخص ہے جس نے حق کو جانا (یعنی یہ جانا کہ حق اس بات میں ہے) اور پھر حق ہی کے مطابق فیصلہ کیا اور جس نے حق کو جانا مگر (اس کے باوجود) اپنے حکم و فیصلہ میں ظلم کیا (یعنی اس نے دیدہ دانسۃ حق کو پامال کیا تو وہ دوزخی ہے، اسی طرح جو اپنی جہالت کی وجہ سے حق کو نہیں پہنچانا اور اسی حالت میں لوگوں کے تنازعات کا فیصلہ کیا تو وہ بھی دوزخی ہے (کیونکہ اس نے حق رسی میں کوتاہی اور تقصر کی۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ) اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص مسلمانوں کے منصب قضاء کا طالب اور خواستگار ہوا یہاں تک کہ اس نے اس کو حاصل بھی کرلیا اور پھر اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں) اس کا عدل و انصاف ظلم پر غالب ہوگا تو جنت ملے گی اور اگر ظلم غالب ہوگا تو دوزخ ملے گی۔ لیکن علماء نے لکھا ہے کہ دونوں ہی صورتوں میں غالب کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس درجہ کا ہو کہ دوسرے کے لئے رکاوٹ بن جائے۔ مثلًا اس کے عدل و انصاف کا وصف اس طرح حاوی ہو کہ اس کا ظلم سر نہ اٹھا سکے۔ یا اس کے ظلم کی خصلت اتنی حاوی ہو کہ اس کے مقابلہ پر اس کا عدل ظاہر نہ ہو سکے۔
Top