مشکوٰۃ المصابیح - قیدیوں کے احکام کا بیان - حدیث نمبر 3885
وعن علي رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه و سلم : أن جبريل هبط عليه فقال له : خيرهم يعني أصحابك في أسارى بدر : القتل والفداء على أن يقتل منهم قابلا مثلهم قالوا الفداء ويقتل منا . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب
جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں دیا گیا اختیار
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام)، آنحضرت کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ آپ ﷺ اپنے صحابہ کو جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں اختیار دے دیجئے کہ خواہ وہ ان کو قتل کردیں یا فدیہ لے لیں (یعنی مال لے کر ان کو چھوڑیں دیں) لیکن فدیہ لینے کی صورت میں آئندہ سال ان (صحابہ) کے اتنے ہی (یعنی ستر) آدمی مارے جائیں گے۔ صحابہ نے (اس اختیار کو سن کر) عرض کیا کہ ہم فدیہ لینے کو اور اپنے ستر آدمیوں کے مارے جانے کو اختیار کرتے ہیں۔ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
جنگ بدر میں مکہ کے جو کفار قریش مسلمانوں کے مقابلہ پر آئے تھے ان میں سے ستر کفار قریش قتل کر دئیے گئے تھے اور ستر ہی کی تعداد گرفتار کر کے مدینہ لائی گئی تھی، جب یہ ستر قیدی مدینہ میں پہنچے تو آنحضرت ﷺ نے ان کے بارے میں صاحب الرائے صحابہ سے مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا جائے، آیا ان کو قتل کردیا جائے یا فدیہ یعنی مالی معاوضہ لے کر ان کو رہا کردیا جائے؟ حضرت ابوبکر نے یہ مشورہ دیا کہ آپ ﷺ ان کو قتل نہ کرائیے بلکہ زندہ چھوڑ دیجئے عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو کفر سے توبہ کی توفیق عطا فرما دے اور یہ مسلمان ہوجائیں، البتہ ان سے فدیہ لے لیجئے تاکہ ان سے فدیہ کے طور پر جو مال حاصل ہو وہ آپ کے رفقاء (یعنی مسلمانوں کی تقویت اور ان کی کچھ دینی و دنیوی ضروریات کے تکمیل کا ذریعہ بن جائے۔ حضرت عمر فاروق نے عرض کیا کہ میری رائے یہ ہے کہ آپ ﷺ ان سب کی گردن اڑا دیجئے کیونکہ یہ کفر وشرک کے پیشوا اور سردار ہیں (ان کی موت سے کفر وشرک پر کاری ضرب لگے گی) اور (جہاں تک ان کی رہائی کے ذریعہ کچھ مالی منفعت حاصل ہوجانے کا سوال ہے تو) اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مال حاصل کرنے سے مستغنی وبے نیاز بنا رکھا ہے! آنحضرت ﷺ نے یہ اختلاف آراء دیکھتے ہوئے (حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے مشورہ پر) صحابہ کو اختیار دے دیا کہ تم لوگ دونوں چیزوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرلو کہ چاہے تو اپنے قیدیوں کی گردن اڑا دو اور چاہے فدیہ لے کر ان کو آزاد کردو لیکن یہ واضح رہے کہ فدیہ لینے کی صورت میں یہ مقدر ہوچکا ہے کہ آئندہ سال تم میں ستر آدمی شہید ہوں گے اور فی الجملہ کفار کو فتح بھی حاصل ہوگی۔ صحابہ نے اس انتباہ کے باوجود فدیہ لینے کو اختیار کیا۔ جب آئندہ سال غزوہ احد ہوا اور میدان جنگ میں مسلمانوں کو زبردست مقابلہ کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ ایک موقع پر پسپائی کی صورت بھی اختیار کرنی پڑی، تو آنحضرت ﷺ نے ایک سال پہلے جس چیز سے متنبہ کیا تھا وہ سامنے آئی یعنی اس غزوہ میں مسلمانوں کو اپنی ستر قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور ان ستر شہیدوں میں حضرت حمزہ ابن عبدالمطلب اور حضرت مصعب ابن عمیر جیسے جلیل القدر صحابہ بھی شامل تھے۔ ہنگامہ جنگ کے بعد حضرت عمر فاروق دربار رسالت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق دونوں رو رہے ہیں انہوں نے پوچھا کہ آپ کیوں رہے ہیں؟ مجھے بھی بتائیے تاکہ میں بھی رو وں! آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھیوں پر رو رہا ہوں جنہوں نے فدیہ لینے کو اختیار کیا تھا اور (آپ ﷺ کے نزدیک ایک درخت کھڑا تھا اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ) مجھے اس درخت سے بھی زیادہ قریب سے ان کا عذاب دیکھایا گیا ہے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر ان پر عذاب نازل کیا جاتا تو اس عذاب سے عمر اور سعد ابن معاذ کے علاوہ اور کسی کو نجات نہیں ملتی حضرت سعد ابن معاذ بھی حضرت عمر فاروق کی اس رائے کے حامی تھے کہ ان قیدیوں سے فدیہ نہیں لینا چاہئے بلکہ ان کو قتل کردینا ہی مناسب ہے) بہرحال صحابہ کرام نے فدیہ لینے کو اختیار کیا تو اس کی بنیاد ان قیدیوں کے تئیں ان (صحابہ) کی یہ انتہائی خواہش اور رغبت تھی کہ اگر یہ قتل ہونے سے بچ گئے تو کبھی نہ کبھی مسلمان ہوجائیں نیز آئندہ سال خود اپنے شہید ہوجانے کی تمنا بھی اس کا محرک بنی اس کے ساتھ ہی ان قیدیوں کے اہل و عیال اور ان کے اقرباء کے ساتھ ان (صحابہ) کا جذبہ ترحم بھی اس کا متقاضی ہوا کہ یہ قیدی قتل نہ کئے جائیں۔ اس موقع پر ایک یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں کو دو چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو پسند کرنے کا اختیار دے دیا گیا تھا اور اسی اختیار کی بناء پر انہوں نے ایک چیز کو پسند کرلیا تو پھر ان پر عتاب کیوں ہوا، یہ عتاب اس اختیار کے منافی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اختیار دینا دراصل امتحان و آزمائش تھا کہ دیکھیں یہ لوگ (مسلمان اس چیز کو اختیار کرتے ہیں جو پسندیدہ حق ہے یا اس چیز کو اختیار کرتے ہیں جو ان کے دل کی خواہش کے مطابق ہے۔ اسی اعتبار سے وہ لوگ گویا اس امتحان و آزمائش میں کامیاب نہیں رہے کیونکہ انہوں نے اس چیز کو اختیار کیا جس کو ان کے دل نے چاہا لہٰذا ان پر عذاب ہوا۔ علامہ تورپشتی نے اس اختیار دینے والی) حدیث کو بعید جانا ہے کیونکہ یہ بظاہر اس بات کے مخالف ہے جو قرآن کریم سے مفہوم ہوتی ہے نیز ترمذی نے اس روایت پر غرابت کا حکم لگایا ہے لیکن میں نے کہا ہے کہ غریب روایت کے ذریعہ کوئی بات ثابت کرنا موجب طعن نہیں ہے کیونکہ غریب روایت کبھی صحیح بھی ہوتی ہے۔
Top