مشکوٰۃ المصابیح - مال غنیمت کی تقسیم اور اس میں خیانت کرنے کا بیان - حدیث نمبر 3922
وعن محمد بن أبي المجالد عن عبد الله بن أبي أوفى قال : قلت : هل كنتم تخمسون الطعام في عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ قال : أصبنا طعاما يوم خيبر فكان الرجل يجيء فيأخذ منه مقدار ما يكفيه ثم ينصرف . ورواه أبو داود (2/413) 4021 - [ 37 ] ( لم تتم دراسته ) وعن ابن عمر : أن جيشا غنموا في زمن رسول الله صلى الله عليه و سلم طعاما وعسلا فلم يؤخذ منهم الخمس . رواه أبو داود (2/413) 4022 - [ 38 ] ( لم تتم دراسته ) وعن القاسم مولى عبد الرحمن عن بعض أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم قال : كنا نأكل الجزور في الغزو ولا نقسمه حتى إذا كنا لنرجع إلى رحالنا وأخرجتنا منه مملوءة . رواه أبو داود
مال غنیمت میں کھانے کی جو چیزیں ہاتھ آئیں ان کا حکم
اور حضرت محمد ابن ابوالمجالد، حضرت عبداللہ بن اوفی سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ( حضرت عبداللہ) سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ رسول کریم ﷺ کے زمانے میں کھانے کی چیزوں میں سے بھی خمس یعنی پانچواں حصہ نکالتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ غزوہ خیبر کے دن کھانے کی چیزیں بھی ہمارے ہاتھ لگی تھیں، چناچہ ہر کوئی شخص آتا اور ان میں سے بقدر کفایت لے کر واپس چلا جاتا۔ ( ابوداؤد)

تشریح
سوال کا مطلب یہ تھا کہ آیا ان چیزوں میں سے بھی خمس نکالا جاتا تھا یا جو چیزیں کھانے کی قسم سے ہوتیں، ان کو تقسیم سے متشنیٰ رکھا جاتا تھا کہ جو شخص چاہتا ان کو اپنے مصرف میں لے آتا؟ جواب کا حاصل یہ تھا کہ کھانے پینے کی چیزوں میں سے خمس نہیں نکالنا چاہئے لیکن اس بات کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ ایسی چیزوں میں سے جو کچھ بھی لیا جائے وہ بس اتنی ہی مقدار میں ہو کہ ضرورت و حاجت پوری ہوجائے اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ( ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ کے زمانے میں ( مسلمانوں کا) لشکر (جب جہاد سے واپس آیا تو) مال غنیمت میں کھانے کی چیزیں اور شہد لے کر آیا۔ چناچہ ( ان لشکر والوں نے ان چیزوں میں سے جو کچھ کھا پی لیا تھا یا وہ جو کچھ بچا کرلے لئے تھے اس میں سے) ان سے خمس یعنی پانچواں حصہ نہیں لیا گیا۔ ( ابوداؤد) اور حضرت قاسم ( تابعی) جو عبدالرحمن کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے بعض صحابہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ( یعنی ان بعض صحابہ نے بیان کیا کہ ہم غزو وں میں اونٹ کا گوشت کھاتے اور اس کو تقسیم نہ کرتے ( یعنی ہم محاذ جنگ پر ضرورت کے وقت مال غنیمت کے اونٹوں کو ذبح کرتے اور انکا گوشت تقسیم کئے بغیر اپنی اپنی حاجت کے بقدر لے لیتے) یہاں تک کہ جب ہم ( سفر کے دوران) اپنے ڈیروں، خیموں میں واپس آتے تو ہمارے تھیلے گوشت سے بھرے ہوئے ہوتے۔ ( ابوداؤد) تشریح ابن ہمام فرماتے ہیں کہ جب مسلمان ( جہاد کے بعد) دارالاسلام واپس آتے ہوئے دارالحرب کی سرحدوں سے پار ہوجائیں تو اس کے بعد ان کے لئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ وہ اپنے جانوروں کو مال غنیمت میں سے گھاس دانہ کھلائیں یا مال غنیمت کی کھانے پینے کی چیزوں میں سے خود کچھ کھائیں کیونکہ اس صورت میں وہ ضرورت اپنی باقی نہیں رہ گئی ہے جس کی بناء پر دارالحرب میں مال غنیمت کی کھانے پینے کی چیزوں کا اپنے مصرف میں لانا مجاہدین کے لئے مباح تھا۔ نیز جس شخص کے پاس دارالحرب میں غیر تقسیم شدہ مال غنیمت کا گھاس دانہ یا کھانے پینے کی چیزیں اس کی ضرورت و حاجت سے زائد ہوں وہ ان کو مال غنیمت میں واپس کر دے۔
Top