مشکوٰۃ المصابیح - مال غنیمت کی تقسیم اور اس میں خیانت کرنے کا بیان - حدیث نمبر 3932
وعن ابن عباس قال : حدثني عمر قال : لما كان يوم خيبر أقبل نفر من صحابة النبي صلى الله عليه و سلم فقالوا : فلان شهيد وفلان شهيد حتى مروا على رجل فقالوا : فلان شهيد فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : كلا إني رأيته في النار في بردة غلها أو عباءة ثم قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : يا ابن الخطاب اذهب فناد في الناس : أنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون ثلاثا قال : فخرجت فناديت : ألا إنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون ثلاثا . رواه مسلم
مال غنیمت میں خیانت کرنے والا دوزخ میں ڈالا جائے گا
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت عمر ابن خطاب نے ہم سے یہ بیان کیا کہ جب خیبر کا دن آیا ( یعنی جب غزوہ خیبر ختم ہو گیا) تو نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے چند لوگ آئے اور (آپس میں) کہنے لگے کہ فلاں شخص شہید ہوگئے تھے ان کے نام لے لے کر ان کی شہادت کا ذکر کرتے تھے) یہاں تک وہ لوگ ایک شخص (کی لاش) پر سے گذرے اور کہا کہ (یہ) فلاں شخص شہید ہے، رسول کریم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ ہرگز نہیں، ( تم لوگ جس معنی میں اس کو شہید کہتے ہو وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ) میں نے اس شخص کو مال غنیمت میں سے ایک چادر یا ایک دھاری دار کملی چرانے کے سبب دوزخ میں (جلتے) دیکھا ہے۔ پھر رسول کریم ﷺ نے ( مجھ کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ ابن خطاب جاؤ اور لوگوں کے درمیان تین مرتبہ یہ منادی کردو کہ جنّت میں (ابتداءً ) صرف مؤمن (یعنی کامل مؤمن) ہی داخل ہوں گے۔ حضرت عمر کہتے ہیں کہ چناچہ میں نکلا اور تین مرتبہ یہ منادی کی کہ خبردار! جنّت میں صرف مؤمن ہی داخل ہوں گے۔ ( مسلم)

تشریح
جنّت میں صرف مؤمن ہی داخل ہوں گے۔ ابن ملک کہتے ہیں کہ شرعی اصطلاح اور عرف عام میں مؤمن اس شخص کو کہتے ہیں جو آنحضرت ﷺ پر اور آپ ﷺ کی شریعت پر ایمان لائے۔ اس اعتبار سے جس شخص نے خیانت کا ارتکاب کیا اس نے گویا آنحضرت ﷺ کی رسالت و شریعت کی تصدیق سے انکار کیا بایں طور کہ اس تصدیق کے نتیجہ میں اس پر جو احکام نافذ ہوتے ہیں اس نے ان پر عمل نہیں کیا۔ لیکن اس کا یہ مطلب بہر حال نہیں ہوسکتا کہ جس شخص نے خیانت کا ارتکاب کر کے آنحضرت ﷺ کی تصدیق کے منافی عمل کیا وہ سرے سے مؤمن نہیں رہا، لہٰذا اس اعلان کے ذریعہ کہ جنّت میں صرف مؤمن ہی داخل ہوں گے۔ آنحضرت ﷺ کا اس شخص کو بظاہر زمرہ مؤمنین سے خارج کرنا اصل میں سخت زجر و تنبیہ اور وعید کے طور پر تھا یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس ارشاد میں مؤ من سے مراد متقی و پرہیزگار مؤمن ہے اور داخل ہونے سے مراد بلا عذاب داخل ہونا ہے، اس طرح اس ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ جو مؤمن، تقوی، و پرہیز گاری کی راہ پر گامزن ہوں گے وہ جنّت میں بغیر عذاب کے داخل کئے جائیں گے، لیکن جو مؤمن متقی و پرہیز گار نہیں ہوں گے اور گناہ کا ارتکاب کریں گے انہیں پہلے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا تاکہ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت لیں اور پھر بعد میں انہیں بھی جنّت میں داخل کردیا جائے گا چونکہ یہ ارشاد میں نے اس کو دوزخ میں دیکھا ہے بظاہر ان نصوص کے خلاف ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کسی کا حقیقتاً دوزخ میں ڈالا جانا، حشر کے بعد ہی واقع ہوگا۔ لہٰذا اس ارشاد گرامی کو تمثیل پر محمول کیا جائے، یعنی آنحضرت ﷺ نے اس اسلوب بیان کے ذریعے درحقیقت اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ شخص دوزخ میں ڈالا جائے گا جیسا کہ ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال کے انتقال سے پہلے ہی ان کے جنّت میں داخل ہونے کو تمثیل کے طور بیان فرمایا تھا، میرے نزدیک یہ احتمال بھی ہے کہ یہ ارشاد مجازی اسلوب بیان کا مظہر ہو، یعنی آنحضرت ﷺ کی مراد یہ تھی کہ میں اس شخص کو ایک ایسے گناہ کا مرتکب جانتا ہوں جو دوزخ کے عذاب کو واجب کرنے والا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ (اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ ) 82۔ الانفطار 13) (نیک لوگ جنّت میں ہیں) ظاہر ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نیک لوگ ابھی سے جنّت میں پہنچ گئے ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ نیک لوگ ان اوصاف حمیدہ کے حامل ہوتے ہیں جو ان کو جنّت میں لے جائیں گے۔
Top