مشکوٰۃ المصابیح - میت پر رونے کا بیان - حدیث نمبر 1707
تعزیت کے وقت کیا الفاظ کہے جائیں
مستحب یہ ہے کہ جب کوئی شخص اہل میت سے تعزیت کرے تو اس سے صبر و تسلی کے اس قسم کے الفاظ کہے اللہ تعالیٰ مرنے والے کو اپنی مغفرت و بخشش سے نوازے، اسی کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اس پر اپنی رحمت کا سایہ کرے، سانحہ ارتحال کے اس سخت حادثہ پر تم سب کو صبر کی توفیق عطا فرمائے اور تم سب کو اس رنج و مصیبت کے بدلہ میں ثواب عطا فرمائے۔ تعزیت کے لئے بہترین الفاظ وہی ہیں جو آنحضرت ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ ان للہ مااخذ ولہ ما اعطی وکل چیز عندہ باجل مسمی وہ چیز بھی اللہ ہی کی ملکیت ہے جو اس نے لے لی ہے اور وہ چیز بھی اسی کی ملکیت میں ہے جو اس نے دے رکھی ہے اور اس کے نزدیک ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے اگر کوئی غیر مسلم مرجائے اور اس کا قرابتی مسلمان ہو تو اس سے تعزیت اس طرح کی جائے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بہت زیادہ ثواب عطا فرمائے اور تمہیں بہترین صبر و سکون کی دولت سے نوازے اور اگر میت مسلمان ہو اور قرابتی غیر مسلمان تو اس سے اس طرح کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ مرنے والے کو بخشش و مغفرت سے نوازے اور تمہیں صبر و سکون عطا فرمائے۔ اور اگر میت اور قرابتی دونوں ہی غیر مسلم ہوں تو تعزیت ان الفاظ کے ذریعہ کی جائے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بدلہ عطا فرمائے اور تمہارے اہل و عیال میں کمی نہ فرمائے۔ احساس رنج وغم پر تین دن تک اپنے کاروبار چھوڑ کر گر میں بیٹھے رہنا اگرچہ جائز ہے لیکن اس کا ترک اولیٰ ہے۔ اظہار رنج وغم کے لئے مردوں کو سیاہ کپڑا پہننا، رنج و مصیبت کے وقت کپڑے پھاڑ ڈالنا، چاک گریباں ہوجانا یہ سب چیزیں ممنوع ہیں ہاں اگر عوتیں سیاہ کپڑے پہنیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ کسی کے انتقال پر حد سے زیادہ جزع وفزع کرنا اور خواہ مخواہ کے ہنگامے کرنا مثلاً منہ اور ہاتھوں کو کالا کرنا، چاک گریباں ہوجانا، منہ نوچنا، بالوں کو بکھیر ڈالنا، سر پر مٹی ڈالنا، راتوں کو پیٹنا، سینہ کو بی کرنا اور قبروں پر آگ روشن کرنا یہ سب باتیں زمانہ جاہلیت کی رسوم اور انتہائی غلط و باطل ہیں ان سے بچنا بہت ضروری ہے۔ جس گھر میں میت ہوجائے وہاں کھانا پکا کر بھیجنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اسے اس طرح ضروری اور لازم جان لینا کہ خواہ اس کے لئے ادھا قرض ہی کیوں نہ کرنا پڑے انتہائی غلط بات ہے اسی طرح تیسری روز یعنی تیجہ میں لوگوں کو بطور خاص مدعو کرنا اور برادری والوں کو کھانا کھلانا بھی بڑی بری بات اور بےفائدہ چیز ہے۔ یہ بات بطور خاص یاد رکھیے کہ جو لوگ تیجہ کے نام پر جو کچھ خرافات اور اور واہیات حرکتیں کرتے ہیں وہ انتہائی گمراہی میں مبتلا ہیں مثلاً موت کے تیسرے دن اس طرح انتظامات کئے جاتے ہیں کہ شادی بیاہ میں بھی کیا انتظامات ہوتے ہوں گے لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے برادری والے جمع ہوتے ہیں فرش بچھتے ہیں، خیمے کھڑے کئے جاتے ہیں خوشبوئیں بانٹی جاتی ہیں یہ سب باتیں بدعت اور انتہائی گمراہ کن ہیں ان واہیات اور خرافات سے اجتناب ضروری ہے۔ نصاب میں لکھا ہے کہ جن جگہوں پر یہ رسم جاری ہے کہ مرد موت کے تیسرے دن خوشبو لگاتے ہیں وہ عورتوں کے ساتھ مشابہت میں مبتلا ہیں کیونکہ عورتیں تیسرے روز سوگ ختم کرنے کے لئے خوشبو لگاتی ہیں لہٰذا اس سے بھی پرہیز کرنا چاہئے لیکن یہ ممانعت خوشبولگانے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اس طرح اس وقت عورتوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اور شریعت نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا ہے۔ آداب تعزیت یہ ہیں کہ جب کوئی شخص میت کے گھر تعزیت کے لئے جائے تو وہاں اہل خانہ کو سلام کرے، مصافحہ کرے ان کے ساتھ انتہائی تواضع اور نرمی کے ساتھ بات چیت کرے، بےفائدہ اور زیادہ گفتگو نہ کرے بلکہ صرف تسلی اور اطمینان اور صبروسکون کے الفاظ کہے اور ہنسنے مسکرانے سے پرہیز کرے۔
Top