مشکوٰۃ المصابیح - جن چیزوں میں زکوۃ واجب ہوتی ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 1793
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : العجماء جرحها جبار والبشر جبار والمعدن جبار وفي الركاز الخمس
رکاز کی زکوۃ
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر جانور کسی کو زخمی کر دے تو معاف ہے اگر کنواں کھدوانے میں کوئی مرجائے تو معاف ہے اگر کان کھدوانے میں کوئی مرجائے تو معاف ہے اور رکاز میں پانچواں حصہ واجب ہوتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
کوئی جانور یعنی گھوڑا، بیل اور بھینس وغیرہ اگر کسی شخص کو زخمی کر دے کوئی چیز ضائع کر دے یا کسی کو جان ہی سے مار ڈالے اور اس موقعہ پر جانور کے ساتھ کوئی یعنی اس کا مالک وغیرہ نہ ہو اور یہ کہ دن کا وقت ہو تو جانور کا زخمی کرنا یا کسی چیز کو ضائع کردینا معاف ہے یعنی اس کے مالک پر اس کا کوئی بدلہ اور جرمانہ نہیں ہوگا۔ ہاں اگر جانور اس حال میں کسی کو زخمی کرے یا کوئی چیز ضائع کر دے کہ اس پر کوئی سوار ہو یا اس کے ساتھ کوئی ہانکنے والا اور کھینچنے والا ہو تو ایسی صورت میں جانور کے مالک پر بدلہ اور جرمانہ واجب ہوگا کیونکہ اس میں کوتاہی اور لاپرواہی کو دخل ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی جانور رات کے وقت چھوٹ کر کسی کو زخمی کر دے یا کوئی چیز تلف کر دے تو اس کے مال پر اس کا تاوان آئے کیونکہ رات میں جانوروں کو باندھا جاتا ہے مگر اس نے جانور کو نہ باندھ کر لاپرواہی اور کوتاہی کا ثبوت دیا اس بارے میں مذکورہ حدیث اگرچہ عام ہے اور اس میں کوئی قید اور تخصیص نہیں ہے مگر دوسری احادیث اور دیگر دلائل کے پیش نظر مذکورہ قیود کو ذکر کیا گیا ہے۔ والبیر جبار (اگر کنواں کھدوانے میں کوئی مرجائے تو معاف ہے) اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً کوئی شخص کنواں کھدوانا چاہتا ہے اور اس نے کنواں کھودنے کے لئے کسی مزدور کی خدمات حاصل کی ہیں اب اگر وہ مزدور کنواں کھودتے ہوئے گر کر یا دب کر مرجائے تو کنواں کھدوانے والے پر کوئی تاوان یعنی خون بہا وغیرہ واجب نہیں۔ اس طرح اگر کوئی شخص اپنی زمین میں یا کسی ایسی افتادہ زمین میں کہ جس کے مالک کا کوئی پتہ نہ ہو کنواں کھدوائے اور اس کنویں میں کوئی آدمی یا جانور گر کر مرجائے تو اس صورت میں بھی اس پر کوئی تاوان نہیں آئے گا ہاں اگر کنواں راستے میں یا کسی دوسرے کی زمین میں مالک کی اجازت کے بغیر کھدوایا جائے اور اس کنویں میں کوئی آدمی یا جانور گر کر مرجائے تو اس صورت میں کنوا کھودنے والے کے عاقلہ پر تاوان یعنی خون بہا واجب ہوگا یہی حکم اس شخص کے بارے میں لاگو ہوگا جو سونا چاندی، فیروزہ یا مٹی نکلوانے کے لئے زمین کے کسی حصے کو کھدوائے گا۔ عاقلہ کسے کہتے ہیں عاقلہ ایک فقہی اصطلاح ہے اس کے معنی مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ کسی شخص سے کوئی جرم سرزد ہوجاتا ہے مثلا وہ شکار پر بندوق چلاتا ہے اور اتفاق سے بغیر کسی قصد و ارادہ کے اس کی گولی شکار کی بجائے کسی انسان کو ہلاک کردیتی ہے یا مذکورہ بالا صورت کے مطابق کوئی شخص راستہ میں کنوا کھدوا دیتا ہے اور اس کنویں میں گر کر کوئی مرجاتا ہے تو جس شخص کی گولی سے کوئی خون ہوجائے یا جس شخص کے کھودے ہوئے کنویں میں کوئی گر کر مرجائے اس کے ساتھی اور رفیق عاقلہ کہلاتے ہیں فرض کیجئے وہ شخص فوج میں یا پولیس میں ملازم ہے تو اس کے ساتھی فوجی یا سپاہی عاقلہ کہلائیں گے اور اگر وہ کہیں ملازم نہ ہو تو پھر اس کے قبیلہ اور خاندان والے اس کے عاقلہ کہلائیں گے۔ عاقلہ پر تاوان کیوں؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غلطی تو اس شخص کی ہے مگر جرمانہ اور تاوان اس کے ساتھیوں یا اس کے اہل خاندان اور قبیلہ والوں پر کیوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اس شخص سے کسی غلطی کا ارتکاب ہوگیا اور اس غلطی میں بھی اس کے قصد و ارادہ کو کوئی دخل نہیں تھا تو اگرچہ اس پر کوئی جرمانہ کیوں نہ کردیا جائے مگر ہوسکتا ہے کہ وہ اس غلطی پر پشیمان و نادم نہ ہو اور اس کی لاپرواہی اور کوتاہی آئندہ کسی اور بڑے حادثے کا ذریعہ بن جائے اس لئے ضروری ہوا کہ جرمانہ اور تاوان ان لوگوں پر لازم کیا جائے جو اس کے قریب رہنے والے ہوں اور اس سے متعلق ہوں تاکہ وہ اس پر پوری طرح کنٹرول کرسکیں اور آئندہ کے لئے اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہونے دیں۔ حدیث میں مذکور رکاز سے کیا مراد ہے؟ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں جس رکاز کا ذکر کیا گیا ہے اس سے کان (معدن) مراد ہے لیکن اہل حجاز رکاز سے زمانہ جاہلیت کے دفینے (زمین دوز کئے ہوئے خزانے) مراد لیتے ہیں جہاں تک حدیث کا ظاہر مفہوم اور اس کا سیاق وسباق ہے اس کے پیش نظر وہی معنی زیادہ مناسب اور بہتر معلوم ہوتے ہیں جو حضرت امام اعظم نے مراد لئے ہیں پھر یہ کہ خود آنحضرت ﷺ کا ایک ارشاد گرامی بھی رکاز کے اسی معنی کی وضاحت کرتا ہے چناچہ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ سے جب دریافت کیا گیا کہ رکاز وہ سونا اور چاندی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمین میں اس کی تخلیق کے وقت ہی پیدا فرمایا ہے۔ کان میں سے نکلنے والی چیزوں کی قسمیں اس موقع پر یہ بھی جان لیجئے کہ جو چیزیں کان سے برآمد ہوتی ہیں ان کی تین قسمیں ہیں۔ (١) وہ چیزیں جو منجمد ہوں اور آگ میں ڈالنے سے نرم ہوجائیں نیز منقش کئے جانے کے قابل ہوں یعنی جو سکے وغیرہ ڈھالنے کے کام آسکتی ہوں جیسے سونا، چاندی، لوہا اور رانگا وغیرہ۔ (٢) وہ چیزیں جو منجمد نہیں ہوتیں جیسے پانی، تیل، رال اور گندھک وغیرہ۔ (٣) وہ چیزیں جو آگ میں ڈالنے سے نرم نہ ہوتی ہوں اور نہ سکے وغیرہ کے لئے ڈھالی جاسکتی ہوں جیسے پتھر، چونا، ہڑتا اور یاقوت وغیرہ، چناچہ ان تینوں اقسام میں سے صرف پہلی قسم میں زکوٰۃ کے طور پر خمس یعنی پانچواں حصہ نکالنا واجب ہے اور اس کے لئے ایک سال گزرنا شرط نہیں ہے حضرت امام شافعی کے نزدیک معدنیات میں سے صرف سونے چاندی میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے دوسری مع دنیا مثلاً لوہے، رانگ وغیرہ میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔
Top