مشکوٰۃ المصابیح - جن لوگوں کو سوال کرنا جائز کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 1846
وعن حبشي بن جنادة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن المسألة لا تحل لغني ولا لذي مرة سوي إلا لذي فقر مدقع أو غرم مفظع ومن سأل الناس ليثري به ماله : كان خموشا في وجهه يوم القيامة ورضفا يأكله من جهنم فمن شاء فليقل ومن شاء فليكثر . رواه الترمذي
کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا انتہائی محتاجگی کے وقت جائز ہے۔
حضرت حبشی بن جنادہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا نہ تو غنی کے لئے یعنی اس شخص کے لئے جو ایک دن کی خوراک کا مالک ہو اور نہ تندرست و توانا اور صحیح الاعضاء کے لئے مانگنا حلال ہے ہاں اس فقیر کے لئے مانگنا حلال ہے جسے فقر و فاقہ نے زمین پر ڈال دیا ہو اسی طرح اس قرض دار کے لئے بھی مانگنا حلال ہے جو بھاری قرض کے نیچے دبا ہو یاد رکھو جو شخص صرف اس لئے لوگوں سے مانگے کہ اپنے مال و زر میں زیادتی ہو تو قیامت کے دن اس کا مانگنا اس کے منہ پر زخم کی صورت میں ہوگا۔ نیز دوزخ میں اسے گرم پتھر اپنی خوراک بنائے گا اب چاہے کوئی کم سوال کرے چاہے کوئی زیادہ سوال کرے۔ (ترمذی)

تشریح
زمین پر ڈال دیا ہو، یہ کنایہ ہے شدت محتاجگی اور مفلسی نے زمین پر ڈال رکھا ہے کہ اٹھنے کی بھی سکت نہیں رکھتا۔ گویا مطلب یہ ہے کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا صرف انتہائی محتاجگی ہی کے وقت جائز ہے حدیث کا آخری جملہ بطور تنبیہ و تہدید کے ارشاد فرمایا گیا ہے جیسا کہ کافروں، ظالموں اور اللہ کے باغیوں کے بارے میں بطور تہدید قرآن کریم کی یہ آیت ہے کہ آیت (فَمَنْ شَا ءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَا ءَ فَلْيَكْفُرْ اِنَّا اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِيْنَ نَارًا) 18۔ الکہف 29)۔ جو چاہے مومن ہوجائے اور جو چاہے کافر ہوجائے۔ ہم نے تو ظالموں کے لئے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے۔
Top