مشکوٰۃ المصابیح - جن لوگوں کو سوال کرنا جائز کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 1850
وعن ابن الساعدي المالكي أنه قال : استعملني عمر بن الخطاب رضي الله عنهم على الصدقة فلما فرغت منها وأديتها إليه أمر لي بعمالة فقلت إنما عملت لله وأجري على الله فقال خذ ما أعطيت فإني قد عملت على عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم فعملني فقلت مثل قولك فقال لي رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا أعطيت شيئا من غير أن تسأل فكل وتصدق . رواه مسلم وأبو داود
کام کی اجرت بیت المال سے لینی جائز ہے
حضرت ابن ساعدی کہتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ نے مجھے زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر فرمایا چناچہ جب میں زکوٰۃ کی وصولی سے فارغ ہوگیا اور زکوٰۃ کا مال حضرت عمر ؓ کی خدمت میں پہنچا دیا تو انہوں نے مجھے زکوٰۃ وصول کرنے کی اجرت دئیے جانے کا حکم فرمایا میں نے عرض کیا کہ میں نے یہ کام صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کیا ہے لہٰذا میرے لئے اس کا ثواب بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ذمہ ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا جو چیز تمہیں مل رہی ہے اسے قبول کرلو، کیونکہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں جب میں نے زکوٰۃ وصول کرنے کا کام کیا اور آنحضرت ﷺ نے مجھے اس کی اجرت عطا فرمانی چاہی تو میں نے بھی یہی عرض کیا جو اب تم کہہ رہے ہو، چناچہ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جب تمہیں کوئی چیز بغیر طلب اور بغیر طمع دی جائے تو تم اسے لے کر کھاؤ اور جو کچھ تمہاری ضرورت و حاجت سے زائد ہو اسے اللہ کی راہ میں خیرات کردو۔ ( ابوداؤد )

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے کسی بھی کام اور کسی بھی خدمت کی اجرت بیت المال سے لینی جائز ہے خواہ وہ خدمت فرض ہی کیوں نہ ہو جیسے قضاء احتساب اور درس و تدریس وغیر بلکہ امام وقت کے لئے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ ایسے لوگوں کی بلکہ ان لوگوں کو بھی جو بیت المال کے معاملے میں ان ہی کے حکم میں شامل ہیں خبر گیری رکھے۔ یہ حدیث اور وہ حدیث جو اسی کے مثل حضرت عمر فاروق ؓ کے بارے میں پہلے گزر چکی ہے بظاہر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو اس کے سوال اور اس کی طمع کے بغیر کوئی چیز دے تو اس کو قبول کرنا واجب ہے چناچہ حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے لیکن جمہور علماء اس امر کو استحباب یا اباحت پر محمول کرتے ہیں۔
Top