مشکوٰۃ المصابیح - خرچ کرنے کی فضیلت اور بخل کی کراہت کا بیان - حدیث نمبر 1881
وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه و سلم دخل على بلال وعنده صبرة من تمر فقال : ما هذا يا بلال ؟ قال : شيء ادخرته لغد . فقال : أما تخشى أن ترى له غدا بخارا في نار جهنم يوم القيامة أنفق بلال ولا تخش من ذي العرش إقلالا
ذخیرہ اندوزی کی بجائے توکل علی اللہ کی تعلیم
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ حضرت بلال ؓ کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ ان کے نزدیک کھجوروں کا ڈھیر پڑا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ بلال! یہ کیا ہے؟ حضرت بلال ؓ نے کہا کہ وہ چیز ہے جسے میں نے کل (یعنی آئندہ پیش آنے والی اپنی ضرورت) کے لئے جمع کیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ کل قیامت کے دن دوزخ کی آگ میں تم اس کا بخار دیکھو (پھر فرمایا) بلال اس ذخیرہ کو (خدا کی راہ) میں خرچ کردو اور صاحب عرش سے فقر و افلاس کا خوف نہ کرو۔

تشریح
ارشاد گرامی اما تخشی ان تری لہ غدا الخ میں غد (کل) سے مراد قیامت کا دن ہے لہٰذا کہا جائے گا کہ اس جملے میں یوم القیامۃ کے الفاظ عند کی تاکید کے طور پر ارشاد فرمائے گئے ہیں بخار سے مراد اثر ہے مطلب یہ ہے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ قیامت کے دن اس کے سبب دوزخ کی آگ کا اثر تمہیں پہنچے، گویا یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی دوزخ سے قریب ہے اور اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر تم اللہ پر توکل نہیں کرو گے اور فقر و افلاس کے خوف سے ذخیرہ اندوزی کرو گے تو اس کی وجہ سے دوزخ کے قریب ہوجاؤ گے۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی نہ کرو۔ بلکہ جو جمع کیا ہے اسے اللہ کے نام پر خرچ کر ڈالو، فقر و افلاس کا خوف نہ کرو بلکہ اللہ پر اعتماد اور بھروسہ رکھ کیونکہ جس قادر مطلق نے عرش عظیم کو پیدا کیا ہے اور تمہاری تخلیق کی ہے وہی تمہیں روزی بھی پہنچائے گا۔ گویا آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال کو یہ حکم بطور تعلیم دیا کہ مقام کمال حاصل کرو جو توکل اور ذات حق پر کامل اعتماد ہے ورنہ تو جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے علماء لکھتے ہیں کہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کے بقدر ذخیرہ کرنا جائز ہے۔
Top