مشکوٰۃ المصابیح - رویت ہلال کا بیان - حدیث نمبر 1982
وعن أبي البختري قال : خرجنا للعمرة فلما نزلنا ببطن نخلة تراءينا الهلال . فقال بعض القوم : هو ابن ثلاث . وقال بعض القوم : هو ابن ليلتين فلقينا ابن عباس فقلنا : إنا رأينا الهلال فقال بعض القوم : هو ابن ثلاث وقال بعض القوم : هو ابن ليلتين . فقال : أي ليلة رأيتموه ؟ قلنا : ليلة كذا وكذا . فقال : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم مده للرؤية فهو لليلة رأيتموه وفي رواية عنه . قال : أهللنا رمضان ونحن بذات عرق فأرسلنا رجلا إلى ابن عباس يسأله فقال ابن عباس : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن الله تعالى قد أمده لرؤيته فإن أغمي عليكم فأكملوا العدة . رواه مسلم
چاند دیکھ کر روزہ رکھنا چاہئے
حضرت ابوالبختری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ عمرہ کرنے کی غرض سے اپنے شہر کوفہ سے نکلے جب ہم لوگ بطن نخلہ میں جو مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے ٹھہرے تو چاند دیکھنے کے لئے ایک جگہ جمع ہوئے چاند دیکھنے کے بعد بعض لوگوں نے کہا کہ یہ چاند تیسری شب کا ہے اور دوسرے بعض لوگوں نے کہا کہ دوسری شب کا ہے اس کے بعد جب ابن عباس ؓ سے ہماری ملاقات ہوئی تو ہم نے اس سے لوگوں کا بیان عرض کیا تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ تم نے چاند کس رات دیکھا تھا؟ ہم نے کہا کہ ایسی اور ایسی رات (یعنی مثلا پیر یا منگل کی رات) میں دیکھا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے رمضان کی مدت کو چاند دیکھنے پر موقوف کیا ہے (یعنی جب چاند دیکھا جائے گا تو رمضان کی ابتداء ہوگی) لہٰذا چاند اسی رات کا ہے کہ جس رات میں تم نے اسے دیکھا ہے۔ ابوالبختری ہی کی ایک روایت یوں ہے کہ ہم نے ذات عرق میں کہ جو مذکورہ بالا بطن نخلہ کے قریب ایک مقام ہے چاند دیکھا، چناچہ ہم نے ایک شخص کو حضرت ابن عباس ؓ کی خدمت میں ان سے یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ یہ چاند کس رات کا ہے؟ کیونکہ ہمارے درمیان مذکورہ بالا اختلاف پیدا ہوگیا تھا حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شعبان کی مدت کو رمضان کا چاند دیکھنے کے وقت تک دراز کیا ہے۔ لہٰذا اگر انتیس تاریخ کو مطلع ابر آلود ہو تو گنتی پوری کرو۔ (یعنی شعبان کے تیس دن پورے کرو) اور اس کے بعد روزہ رکھو۔ (مسلم)

تشریح
حاصل یہ ہے کہ رمضان کا مدار چاند دیکھنے پر ہے چاند کے بڑا ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ہے بلکہ منقول ہے کہ چاند رات میں چاند کا بڑا ہونا قرب قیامت کی علامت ہے۔ یہاں جو روایتیں نقل کی گئی ہیں۔ وہ اگرچہ بظاہر مختلف معلوم ہوتی ہیں مگر درحقیقت اس احتمال کے پیش نظر ان میں کوئی منافات نہیں ہے کہ ان لوگوں نے ذات عرق میں جمع ہو کر چاند دیکھا ہو پھر ان میں اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں ایک آدمی حضرت ابن عباس ؓ کی خدمت میں بھیجا گیا ہو۔ انہوں نے اس وقت آنحضرت ﷺ کا ارشاد نقل فرما دیا پھر جب سب لوگ بطن نخلہ میں پہنچے تو اس بارے میں حضرت ابن عباس ؓ سے بالمشافہ سوال کیا چناچہ حضرت ابن عباس ؓ نے انہیں آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی کی روشنی میں مذکورہ بالا جواب دیا، چاند دیکھنے کے بارے میں کچھ مسائل ذہن نشین کرلیجئے۔ اگر شعبان کی تیس تاریخ کو دن میں زوال سے پہلے یا زوال کے بعد چاند نظر آئے تو وہ شب آئندہ کا چاند سمجھا جائے گا لہٰذا اس دن نہ رمضان کی ابتداء کا حکم دیا جائے گا۔ اور نہ اس دن روزہ رکھنے کے لئے کہا جائے گا اسی طرح اگر رمضان کی تیس تاریخ کو چاند نظر آئے تو نہ اس دن روزہ افطار کیا جائے گا اور نہ اس دن کو یوم عید قرار دیا جائے گا۔ شعبان کی تیسویں شب یعنی انتیس تاریخ کو چاند تلاش کرنا واجب علی الکفایہ ہے۔ اگر کسی ایک جگہ چاند کی رویت ثابت ہوجائے تو تمام جگہوں کے لوگوں کو اگلے روز روزہ رکھنا واجب ہوگا اس سلسلے میں اختلاف مطالع کا اعتبار نہ ہوگا۔ مثلا اگر دہلی میں جمعہ کی شب میں چاند کی رویت ہوجائے اور دوسرے شہروں میں ہفتہ کی شب میں چاند دیکھا جائے تو ہفتہ کی شب میں چاند دیکھنے کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ تمام شہروں میں دہلی کی رویت معتبر ہوگی اور سب جگہ جمعہ کے روز سے روزہ رکھنا لازم ہوگا۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کی ظاہری روایت یہی ہے اور حنفیہ کے جمہور علماء کا اسی پر اعتماد و فتویٰ ہے جب کہ امام شافع اور امام احمد کے مسلک میں اختلاف مطالع کا اعتبار ہے ان حضرات کے ہاں ایک شہر والوں کا چاند دیکھنا دوسرے شہر والوں کے لئے کافی نہیں ہے۔ جس شخص نے رمضان کا چاند دیکھا ہو اور اس کی شہادت و خبر کسی وجہ سے قابل قبول نہ ہو تو خود اس کو اپنی رویت کے مطابق روزہ رکھنا چاہیے اگر وہ خود بھی روزہ نہیں رکھے گا تو اس پر قضا لازم آئے گی۔
Top