مشکوٰۃ المصابیح - نفل روزہ کا بیان - حدیث نمبر 2061
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تختصوا ليلة الجمعة بقيام من بين الليالي ولا تختصوا يوم الجمعة بصيام من بين الأيام إلا أن يكون في صوم يصومه أحدكم . رواه مسلم
جمعہ کے دن روزہ
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمام دنوں میں صرف جمعہ کی رات کو عبادت الٰہی کے لئے مخصوص نہ کرو اسی طرح تمام دنوں میں صرف جمعہ کے دن کو روزہ رکھنے کے لئے مخصوص نہ کرو ہاں اگر تم میں سے کسی کے روزہ کے درمیان کہ جو وہ پہلے سے رکھتا چلا آ رہا ہے جمعہ پڑجائے تو پھر صرف جمعہ کے دن روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (مسلم)

تشریح
یہود نے ہفتہ کے دن کو عبادت کے لئے مخصوص کرلیا اور وہ صرف اسی دن کی تعظیم کرتے ہیں اور اسی طرح عیسائیوں نے اتوار کے دن کو عبادت کے لئے مخصوص کرلیا اور صرف اسی دن کی بےانتہا تعظیم کرتے ہیں اور اسی دن مشغول رہتے ہیں چناچہ آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو اس غلط طریقہ سے روک دیا کہ تم بھی ان دونوں فرقوں کی طرح صرف جمعہ کی شب اور جمعہ کے دن کی جو اہمیت و فضیلت بیان کی ہے وہ تو برحق ہے اور اس دن کی اتنی ہی اہمیت و عظمت پیش نظر رہنی چاہئے اس میں کسی فرقہ کی مشابہت ہی کیوں نہ ہو مگر اپنی طرف سے اس کی تعظیم و تخصیص میں اضافہ نہ کرو یا پھر اس کی مخالفت کا مقصد یہ ہے کہ بندہ کو چاہئے کہ وہ تمام اوقات میں عبادات و طاعات میں مشغول رہے اور ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار رہے کسی خاص وقت کو عبادت کے لئے مخصوص کرلینا اور بقیہ اوقات میں معطل پڑے رہنا قطعا کار آمد نہیں ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ الا ان یکون فی صوم الخ کا مطلب یہ ہے کہ مثلا کسی شخص کا معمول تھا کہ وہ ہر دسویں گیارہویں روزہ رکھتا تھا اور اتفاق سے اسی دن جمعہ آپڑا یا کسی شخص نے نذر مانی کہ میں فلاں تاریخ کو روزہ رکھوں گا اور وہ تاریخ جمعہ کو پڑگئی تو ان اعذار کی وجہ سے صرف جمعہ کے روز روزہ رکھنا ممنوع نہیں ہوگا۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ نماز تہجد کے لئے جمعہ کی شب کو مخصوص کردینے کی اس حدیث میں صراحت کے ساتھ ممانعت ہے چناچہ اس مسئلہ پر تمام علماء کا اتفاق ہے، نیز علماء نے صلوۃ الرغائب کو بدعت اور مکروہ قرار دینے کے سلسلے میں اس حدیث کو بطور دلیل اختیار کیا ہے صلوۃ الرغائب وہ نماز کہلاتی تھی جو بطور خاص ماہ رجب کے پہلے جمعہ کی شب میں پڑھی جاتی تھی چناچہ علماء نے اس نماز کی بدعت و برائی اور اس نماز کو اختراع کرنے والے کی گمراہی و ضلالت کی وضاحت کے لئے مستقل طور پر بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں۔ مولا نا اسحق (رح) فرمایا کرتے تھے کہ اس حدیث کے سلسلے میں شارحین نے جو مذکورہ بالا توجیہات بیان کی ہیں تو یہ ان حضرات کے مسلک کے مطابق ہیں جن کے نزدیک صرف جمعہ کا روزہ رکھنا مکروہ ہے مگر حنفی مسلک کے مطابق اس حدیث کی ان توجیہا کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ حنفیہ کے ہاں صرف جمعہ کے روزہ رکھنا مکروہ نہیں ہے چناچہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے کہ صرف جمعہ کے روز رکھنا جائز ہے بلکہ درمختار میں تو اسے مستحب بیان کیا گیا ہے اس سلسلہ میں حنفیہ کی دلیل وہ حدیث ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے اور دوسری فصل میں آئے گی لہٰذا ہوسکتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث ان تمام احادیث کے لئے ناسخ ہو جن سے صرف جمعہ کے روز روزہ رکھنا ممنوع معلوم ہوتا ہے۔
Top