مشکوٰۃ المصابیح - نفل روزہ کا بیان - حدیث نمبر 2086
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا دعي أحدكم إلى طعام وهو صائم فليقل : إني صائم . وفي رواية قال : إذا دعي أحدكم فليجب فإن كان صائما فليصل وإن كان مفطرا فيطعم . رواه مسلم
نفل روزہ توڑنے کے سلسلہ میں ضیافت عذر ہے یا نہیں ؟
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو کھانے پر بلایا جائے اور وہ روزہ دار ہو تو اسے چاہئے کہ یہ کہ دے کہ میں روزے سے ہوں اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا اگر تم میں سے کسی کی دعوت کی جائے تو اسے چاہئے کہ وہ دعوت قبول کرلے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو دو رکعت نماز نفل پڑھ لے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو اسے چاہئے کہ کھانے میں شریک ہو۔ (مسلم)

تشریح
اگر روزہ دار مہمان کے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے میزبان کسی تشویش و پریشانی میں مبتلا ہوجائے یا کھانا نہ کھانے کی وجہ سے دشمنی یا نفرت پیدا ہوجانے کا خوف ہو تو اس صورت میں نفل روزہ توڑ دینا ہی واجب ہے۔ اور اگر مہمان یہ جانے کہ میزبان کھانا کھانے کی وجہ سے خوش تو ہوگا اور کھانا کھانے کی صورت میں وہ کسی تشویش و پریشانی میں مبتلا بھی نہیں ہوگا۔ تو اس صورت میں نفل روزہ توڑنا مستحب ہے اور اگر اس کے نزدیک دونوں امر برابر ہوں تو اس کے لئے افضل یہی ہے کہ وہ کہہ دے کہ انی صائم میں روزہ دار ہوں خواہ داعی کے یہاں جائے یا نہ جائے۔
Top