مشکوٰۃ المصابیح - ذکراللہ اور تقرب الی اللہ کا بیان - حدیث نمبر 2287
وعن حنظلة بن الربيع الأسيدي قال : لقيني أبو بكر فقال : كيف أنت يا حنظلة ؟ قلت : نافق حنظلة قال : سبحان الله ما تقول ؟ قلت : نكون عند رسول الله صلى الله عليه و سلم يذكرنا بالنار والجنة كأنا رأي عين فإذا خرجنا من عند رسول الله صلى الله عليه و سلم عافسنا الأزواج والأولاد والضيعات نسينا كثيرا قال أبو بكر : فو الله إنا لنلقى مثل هذا فانطلقت أنا وأبو بكر حتى دخلنا على رسول الله صلى الله عليه و سلم فقلت : نافق حنظلة يا رسول الله قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : وما ذاك ؟ قلت : يا رسول الله نكون عندك تذكرنا بالنار والجنة كأنا رأي عين فإذا خرجنا من عندك عافسنا الأزواج والأولاد والضيعات نسينا كثيرا فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : الذي نفسي بيده لو تدومون على ما تكونون عندي وفي الذكر لصافحتكم الملائكة على فرشكم وفي طرقكم ولكن يا حنظلة ساعة وساعة ثلاث مرات . رواه مسلم
ادائیگی حقوق کے وقت ذکر سے غفلت نقصان دہ نہیں ہے
حضرت حنظہ بن ربیع اسیدی ؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھ سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی ملاقات ہوئی تو وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ کہو حنظلہ! تمہارا کیا حال ہے (یعنی آنحضرت ﷺ جو کچھ وعظ و نصیحت فرماتے ہیں اس پر تمہاری استقامت کیسی ہے؟ میں نے کہا کہ حنظلہ تو منافق ہوگیا (یعنی حال کے اعتبار سے ایمان کے اعتبار سے نہیں) حضرت ابوبکر ؓ نے کہا کہ سبحان اللہ حنظلہ یہ تم کیا کہتے ہو! (یعنی ابوبکر ؓ نے بڑے تعجب سے پوچھا کہ کیا بات کہہ رہے ہو اس کا مطلب تو بیان کرو) میں نے کہا کہ (اس میں تعجب کی بات نہیں حقیقت یہ ہے کہ (جب ہم رسول کریم ﷺ کے پاس ہوتے ہیں اور جس وقت آپ ﷺ ہمیں دوزخ کے عذاب سے ڈراتے ہیں اور یا جس وقت آپ ﷺ ہمیں جنت کی نعمتوں کی بشارت سناتے ہیں تو اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم جنت اور دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر جب ہم رسول کریم ﷺ کی صحبت سے جدا ہوتے ہیں اور اپنی بیویوں، اپنی اولادوں، اپنی زمینوں اور اپنے باغات میں مشغول ہوتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں (یعنی اپنے دنیاوی مشاغل میں پھنس کر ان باتوں کا بہت سا حصہ بھول جاتے ہیں جو آنحضرت ﷺ ہمارے سامنے بطور تذکیر و نصیحت فرماتے ہیں اور ہم پر وہ کیفیت باقی نہیں رہتی جو آپ کی صحبت میں ہوتی ہے) حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ اب جب کہ تم نے اپنی یہ حالت بیان کی ہے تو سنو کہ اللہ کی قسم ہم بھی اسی کو پہنچے ہوئے ہیں۔ یعنی ہمارا بھی یہی حال ہے کہ حاضر غائب میں تفاوت ہے اس کے بعد میں اور حضرت ابوبکر ؓ دونوں چلے یہاں تک کہ ہم رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے عرض کیا کہ حضرت جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ﷺ بطور تذکیر و نصیحت جنت و دوزخ کے بارے میں بتاتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر جب ہم آپ ﷺ کے پاس سے اٹھ کر جاتے ہیں اور اپنی بیویوں، اپنی اولاد، اپنی زمینوں اور باغات میں مشغولت ہوتے ہیں تو ہم نصیحت کی بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں یہ سن کر رسول کریم ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم پر ہمیشہ وہی کیفیت طاری رہے جو میری صحبت اور حالت ذکر میں تم پر ہوتی ہے (یعنی تم ہر وقت صاف دل اور اللہ سے ڈرنے والے رہو تو یقینا فرشتے تم سے تمہارے بچھونوں پر اور تمہاری راہوں میں مصافحہ کریں لیکن اے حنظہ! یہ ایک ساعت اور وہ ایک ساعت ہے اور آپ ﷺ نے (یعنی حنظلہ ساعۃ وساعۃ ( تین مرتبہ فرمایا۔ (مسلم)

تشریح
فرشتے تم سے مصافحہ کریں۔ کا مفہوم یہ ہے کہ ایسی صورت میں فرشتے علانیہ یعنی سب کے سامنے تم سے مصافحہ کرتے نظر آئیں اور تم ان کو مصافحہ کرتے دیکھو۔ علانیہ کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ ویسے تو فرشتے اہل ذکر سے خفیہ طور پر مصافحہ کرتے ہی ہیں کہ جس کو دنیاوی نظریں نہیں دیکھ پاتیں۔ بچھونوں پر اور راہوں میں، سے مراد ہے حالت فراغت اور حالت مشغولیت مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں چاہے تم کسی کام مشغول رہتے اور چاہے فارغ ہوتے یعنی ہر وقت اور ہمیشہ فرشتے تم سے مصافحہ کرتے رہتے۔ یہ ایک ساعت اور اور وہ ایک ساعت ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت ایسا ہوتا ہے جب کہ تم پر حالت حضور طاری ہوتی ہے کہ تم اپنے پروردگار کے حقوق ادا کرسکو اور ذکر و شغل میں مصروف رہ سکو اور ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ جب تم پر حالت غفلت کا غلبہ رہتا ہے تاکہ تم اپنے نفس اور اپنے متعلقین کے حقوق ادا کرسکو۔ لہٰذا اپنے اور اپنے متعلقین کے حقوق کی ادائیگی کے وقت ذکر و حضور سے غفلت نقصان دہ نہیں کہ اس صورت میں تم اپنے آپ کو منافق سمجھنے لگو۔ اس لئے اپنے دل سے یہ خوف نکال دو کہ تم خدانخواستہ منافق ہوگئے ہو۔
Top