Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (1513 - 1772)
Select Hadith
1513
1514
1515
1516
1517
1518
1519
1520
1521
1522
1523
1524
1525
1526
1527
1528
1529
1530
1531
1532
1533
1534
1535
1536
1537
1538
1539
1540
1541
1542
1543
1544
1545
1546
1547
1548
1549
1550
1551
1552
1553
1554
1555
1556
1557
1558
1559
1560
1561
1562
1563
1564
1565
1566
1567
1568
1569
1570
1571
1572
1573
1574
1575
1576
1577
1578
1579
1580
1581
1582
1583
1584
1585
1586
1587
1588
1589
1590
1591
1592
1593
1594
1595
1596
1597
1598
1599
1600
1601
1602
1603
1604
1605
1606
1607
1608
1609
1610
1611
1612
1613
1614
1615
1616
1617
1618
1619
1620
1621
1622
1623
1624
1625
1626
1627
1628
1629
1630
1631
1632
1633
1634
1635
1636
1637
1638
1639
1640
1641
1642
1643
1644
1645
1646
1647
1648
1649
1650
1651
1652
1654
1655
1656
1657
1658
1659
1660
1661
1663
1664
1665
1666
1667
1668
1669
1670
1671
1672
1673
1674
1675
1676
1677
1678
1679
1680
1681
1682
1683
1684
1685
1686
1687
1688
1689
1690
1691
1692
1693
1694
1695
1696
1697
1698
1699
1700
1701
1702
1703
1704
1705
1706
1707
1708
1709
1710
1711
1712
1713
1714
1715
1716
1717
1718
1720
1721
1722
1723
1724
1725
1726
1727
1728
1729
1730
1731
1732
1733
1734
1735
1736
1737
1738
1739
1740
1741
1742
1743
1744
1745
1746
1747
1748
1749
1750
1752
1753
1754
1755
1756
1757
1758
1759
1760
1761
1762
1763
1764
1765
1766
1767
1768
1770
1771
1772
صحيح البخاری - مساقات کا بیان - حدیث نمبر 1806
وعن سهل بن سعد قال مر رجل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لرجل عنده جالس ما رأيك في هذا ؟ فقال رجل من أشراف الناس هذا والله حري إن خطب أن ينكح وإن شفع أن يشفع . قال فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم مر على رجل فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ما رأيك في هذا ؟ فقال يا رسول الله هذا رجل من فقراء المسلمين هذا حري إن خطب أن لا ينكح . وإن شفع أن لا يشفع . وإن قال أن لا يسمع لقوله . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا خير من ملء الأرض مثل هذا . متفق عليه
فقراء کی فضیلت
حضرت سہل بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ کے سامنے سے ایک شخص گزرا تو آپ ﷺ نے (اس کو دیکھ کر) اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ جو شخص گزرا ہے اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے، یعنی یہ کوئی اچھا شخص ہے یا برا؟ اس شخص نے جواب دیا کہ یہ شخص نہایت معزز اور شریف ترین لوگوں میں ہے، بخدا، اس شخص کی حیثیت یہ ہے کہ اگر کسی عورت سے نکاح کا پیغام بھیجے تو اس عورت سے اس کا نکاح ہوجائے اور اگر (کسی حاکم و سردار سے کسی شخص کے بارے میں کوئی سفارش کرے تو اس کی سفارش مان لی جائے، راوی حضرت سہل ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ (یہ جواب سن کر) خاموش رہے، اتنے میں ایک دوسرا شخص سامنے سے گزرا تو آپ ﷺ نے اس کو دیکھ کر اپنے پاس بیٹھے ہوئے اسی شخص سے پوچھا کہ اچھا اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ! یہ شخص نادار، قلاش مسلمانوں میں سے ہے، اس کی حیثیت تو یہ ہے کہ اگر نکاح کا پیغام دے تو اس سے کوئی نکاح نہ کرے، اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ ہو اور اگر کوئی بات کہے تو اس کی وہ بات سننے پر کوئی تیار نہ ہو (یعنی یہ شخص اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے اتنی قدر و منزلت بھی نہیں رکھتا کہ کوئی شخص اس کی بات سننے پر آمادہ ہوجائے اور اس کی طرف التفات و توجہ کرے رسول کریم ﷺ نے یہ سنا تو فرمایا۔ (نادان) یہ شخص (کہ جس کو تم نے حقارت کی نظر سے دیکھا ہے اور ایک بےحیثیت انسان سمجھا ہے) اس شخص جیسے لوگوں سے ہری زمین سے بھی کہیں بہتر ہے (جس کی تم نے تعریف کی ہے) (بخاری ومسلم)
تشریح
اس شخص جیسے لوگوں سے بھری زمین الخ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمام روئے زمین اس شخص جیسے لوگوں سے بھر جائے جو پہلے یہاں سے گزرا تھا اور جس کی تعریف و توصیف میں تم رطب اللسان ہوئے تھے تو وہ ایک شخص کہ جو اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے تمہاری نظر میں کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتا ہے مرتبہ و فضیلت کے اعتبار سے اس تمام روئے زمین سے کہیں بہتر قرار پائے گا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضور ﷺ کے پاس جو صاحب بیٹھے ہوئے تھے اور جن سے حضور ﷺ نے ان دونوں اشخاص کے بارے میں سوال کیا تھا وہ خود کوئی غنی اور مال دار شخص ہوں گے، لہٰذا ان کے ساتھ مذکورہ سوال و جواب گویا ان کے حق میں یہ تنبیہ تھی کہ غریب و نادار مسلمانوں کو بنظر حقارت نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ اللہ کے نزدیک ان کو جو فضیلت حاصل ہے وہ بڑے بڑے مالداروں کو بھی حاصل نہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضور ﷺ نے مالدار مسلمانوں کے مقابلہ پر غریب و نادار مسلمان کی اس درجہ فضیلت کیوں بیان فرمائی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر غریب و نادار مسلمان کا دل بہت صاف ہوتا ہے اور اس کے سبب وہ حق کو بہت جلد قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی بہت زیادہ کرتا ہے، اس کے برخلاف غنی و مالدار لوگ عام طور پر بےحسی اور شقاوت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اندر سرکشی وبے نیازی اور تکبر کا وہ مادہ پیدا ہوجاتا ہے جو انہیں قبول حق اور احکام الٰہی کی پیروی سے باز رکھتا ہے۔ اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ آیت (سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ) 7۔ الاعراف 146) اور اس حقیقت کا اندازہ علماء کے شاگردوں اور صلحاء و مشائخ کے مریدوں کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے کہ ان میں سے جو لوگ غریب و نادار ہوتے ہیں وہ حق بات کو بہت جلد قبول کرلیتے ہیں اور جو لوگ صاحب ثروت و مالدار ہوتے ہیں وہ ہر بات میں حیل و حجت کرتے ہیں۔ حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پہلے گزرنے والا شخص بھی مالدار مسلمانوں میں سے تھا نہ کہ کوئی کافر تھا کیونکہ مفاضلہ (یعنی آپس میں ایک دوسرے کی اخروی فضیلت کو ظاہر کرنے) کا تعلق کفار و مسلمین کے مابین ہو ہی نہیں سکتا (یعنی کسی مسلمان اور کسی کافر کو ایک دوسرے کے مقابلہ پر رکھ کر یہ کہا ہی نہیں جاسکتا کہ اخروی اجر وثواب کے اعتبار سے ان میں سے کون شخص زیادہ افضل ہے) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار میں سے کسی بھی شخص کی طرف سرے سے خیر (یعنی اخروی سعادت و بھلائی کی نسبت کی ہی نہیں جاسکتی (اور ظاہر ہے کہ جس شخص میں خیر سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہوسکتا ہو اس کی طرف اخروی فضیلت کی نسبت بھی کسی طرح نہیں کی جاسکتی چناچہ بعض علماء نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جس مسلمان نے اپنی اپنی زبان سے یوں کہا کہ النصرانی خیر من الیہودی (یعنی عیسائی یہودی سے افضل ہے) تو اس کے بارے میں خوف ہے کہ وہ دائرہ کفر میں داخل نہ ہوگیا ہو کیونکہ اس نے اس جملہ کے ذریعہ گویا ان لوگوں میں خیر کا وجود ثابت کیا جن میں سرے سے خیر کا وجود ہی نہیں ہوسکتا، تاہم اس پر کفر کا اطلاق، جزم کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ بعض موقعوں پر لفظ کے ذریعہ (اخروی سعادت و بھلائی کے بجائے) حق کے زیادہ قریب کا مفہوم بھی مراد لے لیا جاتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ مذکورہ جملہ ادا کرنے والے نے لفظ خیر کو اسی مفہوم میں استعمال کیا ہو۔
Top