مشکوٰۃ المصابیح - مختلف اوقات کی دعاؤں کا بیان - حدیث نمبر 2461
وعن معاذ بن جبل قال : سمع النبي صلى الله عليه و سلم رجلا يدعو يقول : اللهم إني أسألك تمام النعمة فقال : أي شيء تمام النعمة ؟ قال : دعوة أرجو بها خيرا فقال : إن من تمام النعمة دخول الجنة والفوز من النار . وسمع رجلا يقول : يا ذا الجلال والإكرام فقال : قد استجيب لك فسل . وسمع النبي صلى الله عليه و سلم رجلا وهو يقول : اللهم إني أسألك الصبر فقال : سألت الله البلاء فاسأله العافية . رواه الترمذي
دنیا کی نعمت پوری نعمت نہیں ہے
حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دعا مانگتے سنا جو اس طرح کہہ رہا تھا اے اللہ میں تجھ سے پوری نعمت مانگتا ہوں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا پوری نعمت کیا چیز ہے؟ اس شخص نے کہا یہ دعا ہے جس کے ذریعہ میں زیادہ مال کے حصول کی امید رکھتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا نادان! جان لے جنت میں داخل ہونا اور دو خ سے نجات پانا پوری نعمت ہے۔ نیز آپ ﷺ نے ایک شخص کو دعا مانگتے سنا جو بارگاہ حق میں ان الفاظ کے ذریعہ عرض رساں تھا یا ذالجلال والاکرام یعنی اے بزرگی و بخشش کے مالک آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری دعا قبول کی گئی لہٰذا جو مانگنا ہو مانگ لو۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے سنا ایک شخص یہ دعا مانگ رہا تھا اے اللہ میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں۔ آپ نے فرمایا تم تو اللہ تعالیٰ سے بلا مانگ رہے ہو۔ حالانکہ چاہئے تھا کہ تم اس سے عافیت مانگو۔ (ترمذی)

تشریح
حدیث کے پہلے جز کا حاصل یہ ہے کہ وہ شخص دنیا کی نعمت کو پوری نعمت سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے اس کے حصول کی دعا مانگ رہا تھا چناچہ آنحضرت ﷺ نے اسے متنبہ فرمایا کہ دنیا کی نعمت ایسی نعمت نہیں ہے جس کو اس طرح طلب کیا جائے کیونکہ یہ فنا ہوجانے والی ہے پوری نعمت اور حقیقی نعمت تو جنت میں داخل ہونا اور دوزخ سے نجات پانا ہے اس لئے اس نعمت کے حصول کی دعا مانگنی چاہئے۔ حدیث کے آخری جز کا حاصل یہ ہے کہ وہ شخص صبر مانگ رہا تھا ظاہر ہے صبر کی ضرورت مصیبت و بلاء کے بعد ہی ہوتی ہے اس لئے صبر مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ بالواسطہ بلا مانگ رہا تھا۔ چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا صبر نہ مانگو کیونکہ اس طرح بلاء کا مانگنا مفہوم ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو کہ وہ تمہیں تمام مصائب اور تمام بلاؤں سے محفوظ رکھے۔ ہاں اگر کسی مصیبت و بلاء میں مبتلا ہو تو پھر صبر کی طاقت مانگنا اور بلاء و مصیبت پر صبر کرنا چاہئے۔
Top