مشکوٰۃ المصابیح - سر منڈانے کا بیان - حدیث نمبر 2714
وعن عائشة قالت : حاضت صفية ليلة النفر فقالت : ما أراني إلا حابستكم . قال النبي صلى الله عليه و سلم : عقرى حلقى أطافت يوم النحر ؟ قيل : نعم . قال : فانفري
عذر کی بنا پر طواف وداع واجب نہیں رہتا
حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ یوم نفر کی رات میں حضرت صفیہ ؓ کے ایام شروع ہوگئے تو وہ کہنے لگیں کہ میرا خیال ہے میں آپ لوگوں کو مدینہ کی روانگی سے روکوں گی کیونکہ میرے ایام شروع ہوگئے ہیں اور میں نے طواف وداع کیا ہی نہیں آنحضرت ﷺ نے جب یہ سنا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسے ہلاک و زخمی کرے کیا اس نے نحر کے دن طواف طواف زیارۃ کیا ہے؟ عرض کیا گیا کہ ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا۔ پھر رکنے کی ضرورت نہیں ہے، چلو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
یوم نفر کی رات سے مراد وہی رات ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے محصب میں قیام فرمایا تھا، یعنی تیرہویں ذی الحجہ کی رات، مگر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ حج کے بیان میں رات کی نسبت روز گزشتہ کی طرف کی جاتی ہے نہ کہ روز آئندہ کی طرف، لہٰذا یوم نفر (تیرہویں ذی الحجہ) کی رات سے وہ رات مراد ہوتی ہے جو تیرہویں کے دن کے بعد آتی ہے۔ بہرکیف حضرت صفیہ ؓ نے تو یہ گمان کیا کہ جس طرح طواف زیارۃ عذر کی وجہ سے ترک نہیں کیا جاسکتا اسی طرح عذر کے سبب طواف وداع کا ترک بھی جائز نہیں اس لئے انہوں نے کہا کہ اب میں جب تک پاک نہ ہوجاؤں اور طواف نہ کرلوں اس وقت تک سب کو ٹہرنا پڑے گا اور آنحضرت ﷺ یہ سمجھے کہ انہوں نے طواف زیارۃ نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے اب ٹھہرنا پڑے گا اس لئے آپ ﷺ نے جملہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسے ہلاک و زخمی کرے، مگر جب آپ کو تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ صفیہ ؓ نے یہ بات طواف زیارۃ کے لئے نہیں کہی بلکہ طواف وداع کے لئے کہی ہے تب آپ ﷺ نے فرمایا کہ طواف وداع کے بغیر ہی مدینہ روانہ ہوجاؤ کیونکہ عذر کی بناء پر طواف کا وجوب ساقط ہوجاتا ہے۔ ہاں اگر طواف زیارۃ ابھی نہ ہوا ہوتا تو پھر اس کی وجہ سے رکنا پڑتا۔ اللہ تعالیٰ اسے ہلاک و زخمی کرے یہ جملہ اگرچہ بد دعائیہ ہے مگر یہ بد دعا کے ارادہ سے استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ اہل عرب کی عادت ہے کہ وہ ایسے جملے از راہ پیار استعمال کرتے ہیں۔
Top