مشکوٰۃ المصابیح - محرم کے لئے شکار کی ممانعت کا بیان - حدیث نمبر 2742
عن الصعب بن جثامة أنه أهدى رسول الله صلى الله عليه و سلم حمارا وحشيا وهو بالأبواء او بودان فرد عليه فلما رأى ما في وجهه قال : إنا لم نرده عليك إلا أنا حرم
حالت احرام میں آنحضرت ﷺ کا شکار سے اجتناب
حضرت صعب ؓ بن جثامہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حمار وحشی (گورخر) بطور ہدی کے بھیجا جب کہ آپ ﷺ مقام ابواء یا ودان میں کہ جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہیں تشریف فرما تھے آپ ﷺ نے اسے واپس کردیا اور جب آپ ﷺ نے اس کی وجہ سے ان کے چہرہ پر غم و افسوس کے آثار محسوس کئے تو فرمایا کہ ہم نے تمہارا ہدیہ اس لئے واپس کردیا ہے کہ ہم احرام باندھے ہوئے ہیں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
بظاہر یہ حدیث ان حضرات کی دلیل ہے جو مطلق شکار کا گوشت کھانے کو محرم کے لئے حرام قرار دیتے ہیں اور چونکہ حنفیہ کا مسلک جو باب کی ابتداء میں ذکر کیا گیا ہے حضرت عمر ؓ حضرت ابوہریرہ ؓ حضرت طلحہ بن عبیدا للہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کے قول کے مطابق ہے اس لئے حنفیہ کے نزدیک اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ زندہ گورخر بطور شکار آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا گیا تھا اور چونکہ شکار قبول کرنا محرم کے لئے درست نہیں ہے اس لئے آپ ﷺ نے اسے واپس کردیا۔ لیکن پھر ایک اشکال اور پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ایک روایت میں وضاحت کے ساتھ یہ منقول ہے کہ گورخر کا گوشت بھیجا گیا تھا، ایک روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ گورخر کی ران بھیجی گئی تھی، اسی طرح ایک روایت یہ بتاتی ہے کہ اس کا ایک ٹکڑا بھیجا گیا تھا۔ لہٰذا ان روایتوں کے پیش نظر یہ معلوم ہوتا ہے کہ زندہ گورخر نہیں بھیجا گیا تھا بلکہ یہاں حدیث میں بھی گورخر سے اس کا گوشت ہی مراد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو آپ ﷺ کی خدمت میں زندہ گورخر ہی بھیجا گیا ہوگا جسے آپ ﷺ نے قبول نہیں کیا، پھر بعد میں دوسرے گورخر کی ران بھیجی گئی اسی کو کسی نے تو گوشت سے تعبیر کیا اور کسی نے اسے اس کا ٹکڑا کہا۔ اس بارے میں حنفیہ کی بڑی دلیل یہ روایت ہے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں گورخر پیش کیا گیا جب کہ آپ ﷺ مقام عرف میں تشریف فرما تھے اور احرام باندھے ہوئے تھے، چناچہ آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو حکم دیا کہ اسے رفقاء میں تقسیم کردو۔ مذکورہ بالا حدیث کے بارے میں شافعیہ یہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس گورخر کو اس گمان کی بناء پر واپس کردیا کہ بطور خاص میرے لئے شکار کیا گیا ہے۔
Top