مشکوٰۃ المصابیح - حرم مدینہ کا بیان - حدیث نمبر 2780
وعن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : إن إبراهيم حرم مكة فجعلها حراما وإني حرمت المدينة حراما ما بين مأزميها أن لا يهراق فيها دم ولا يحمل فيها سلاح لقتال ولا تخبط فيها شجرة إلا لعلف . رواه مسلم
مدینہ کی حرمت کا ذکر
حضرت ابوسعید ؓ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا حضرت ابرہیم نے مکہ کو بزرگی دی اور اس کو حرم قرار دیا (یعنی انہوں نے مکہ کی بزرگی اور حرم کو ظاہر کیا) اور میں نے مدینہ کو بزرگی دی ہے اور مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان کی بزرگی کا تقاضا یہ ہے کہ نہ تو اس میں خونریزی کی جائے نہ وہاں جنگ کے لئے ہتھیار اٹھایا جائے اور نہ اس کے درخت کے پتے جھڑے جائیں البتہ جانوروں کے کھانے کے لئے جھاڑے جاسکتے ہیں۔ (مسلم)

تشریح
علامہ تو پشتی کہتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ وانی حرمت المدینہ میں تحریم سے مراد تعظیم ہے (جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کی گیا ہے) اس سے وہ احکام مراد نہیں جو حرم سے متعلق ہیں یعنی شکار وغیرہ کا حرام ہونا چناچہ اس بات کی دلیل خود آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ اور نہ اس کے درخت کے پتے جھاڑے جائیں البتہ جانوروں کے کھانے کے لئے جھاڑے جاسکتے ہیں (اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حرم مکہ کا جو حکم ہے وہ حرم مدینہ کا نہیں ہے) کیونکہ مکہ کے جو درخت ہیں ان کے پتے جھاڑنے کسی حالت میں بھی درست نہیں ہیں، جہاں تک شکار کا تعلق ہے تو اگرچہ بعض صحابہ نے مدینہ میں شکار مارنے کو حرام کہا ہے لیکن اکثر صحابہ نے مدینہ کے پرندوں کے شکار کا انکار (یعنی اس سے منع) نہیں کیا ہے نیز اس بارے میں آنحضرت ﷺ کی کوئی ممانعت کسی ایسے طریق سے ہم تک نہیں پہنچی ہے جس پر اعتماد کیا جاسکے، یہ علامہ تو پشتی کا اقتباس ہے اس بارے میں ملا علی قاری نے بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے، اہل علم ان کی شرح سے مراجعت کرسکتے ہیں۔
Top