مشکوٰۃ المصابیح - حوض اور شفاعت کا بیان - حدیث نمبر 5510
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن الله عز و جل وعدني أن يدخل الجنة من أمتي أربعمائة ألف بلا حساب . فقال أبو بكر زدنا يا رسول الله قال وهكذا فحثا بكفيه وجمعهما فقال أبو بكر : زدنا يا رسول الله . قال : وهكذا فقال عمر دعنا يا أبكر . فقال أبو بكر : وما عليك أن يدخلنا الله كلنا الجنة ؟ فقال عمر : إن الله عزوجل إن شاء أن يدخل خلقه الجنة بكف واحد فعل فقال النبي صلى الله عليه و سلم : صدق عمر رواه في شرح السنة
حساب و کتاب کے بغیر جنت میں جانے والے
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل نے مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت میں سے چار لاکھ آدمیوں کو بلا حساب و کتاب ( اور مواخذہ و عذاب میں مبتلا کئے بغیر) جنت میں داخل کرے گا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ( یہ سن کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ہماری اس تعداد میں اضافہ کر دیجئے ( یعنی اللہ تعالیٰ سے اس تعداد میں اور اضافہ کرنے کی درخواست کیجئے، یا یہ کہ پروردگار نے آپ ﷺ سے جس چیز کا وعدہ کیا ہے اس کو بڑھا کر بیان کیجئے) کیونکہ آپ ﷺ رحمت الٰہی پر اعتماد کر کے ہم سے جتنا زیادہ سے زیادہ بیان کردیں گے اللہ تعالیٰ اس کو پورا فرمائے گا) آپ ﷺ نے فرمایا اچھا، اتنا اور زیادہ ( یہ کہہ کر) آپ ﷺ نے دونوں ہاتھوں کو یکجا کر کے چلو بنایا حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ہماری اس تعداد و مقدار میں اور اضافہ کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے پھر ( چلو بنا کر) کہا کہ اچھا اتنا اور زیادہ حضرت عمر ؓ بھی اس مجلس میں موجود تھے، انہوں نے محسوس کر کے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ( بس اب) ہمیں ہمارے حال پر رہنے دیجئے ( یعنی اتنی رعایت نہ کرائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے کرم عنایت ہی پر اعتماد کر کے پیٹھ جائیں اور عذاب الٰہی کے خوف سے اس طرح بےفکر ہوجائیں کہ عمل کرنا ہی ترک کردیں، حضرت ابوبکر ؓ نے ( یہ سن کر) کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم سب کو ( بغیر حساب ومواخذہ کے) جنت میں بھیج دے تو تمہارا کیا نقصان ہے؟ حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ اگر اللہ عزوجل اپنی ساری مخلوق کو جنت میں داخل کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ( پھر بار بار اضافہ کی درخواست کرنے کی کیا ضرورت ہے) نبی کریم ﷺ نے ( حضرت عمر ؓ کی یہ بات سن کر) فرمایا عمر نے بالکل سچ کہا۔ اس روایت کو بغوی نے شرح السنۃ میں نقل کیا ہے۔

تشریح
( یہ کہہ کر) آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو یکجا کر کے چلو بنایا یعنی ابوبکر صدیق ؓ کی درخواست پر آنحضرت ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چلو بنا کر گویا ان کے آگے کیا اور فرمایا کہ اتنے اور لوگوں کا اضافہ کرتا ہوں! اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ آپ ﷺ کا چلو بنانا اور یہ کہنا کہ اچھا اتنا اور زیادہ دراصل حق تعالیٰ کے فعل کی حکایت کے طور پر تھا یعنی یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ میں نے بلا حساب جنت میں جانے والوں کی مذکورہ کی تعداد متعین طور پر بیان نہیں کی ہے بلکہ اس تعداد سے کثرت مراد ہے، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ اس طرح چلو بھر کر یعنی بیشمار اور بےتعداد لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا اس لئے حدیث کے شارحین نے کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر چلو بنانے کی تمثیل اس حقیقت کے پیش نظر اختیار کی کہ دل کھول کردینے والے کی شان یہی ہوتی ہے کہ جب اس سے زیادہ دینے کی درخواست کی جاتی ہے تو وہ تعداد و مقدار سے صرف نظر کر کے چلو بھر بھر کر بےحساب دیتا ہے۔ پس چلو بھر کردینا دراصل ایک تمثیل ہے جو زیادہ سے زیادہ دینے کی شان کو ظاہر کرتی ہے۔ اس حدیث میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کے تعلق سے جو کچھ ذکر ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مذکورہ مسئلہ میں ان دونوں کے درمیان کوئی ذہنی وفکری اور نیاز مندی اور درخواست گزاری کے قبیل سے تھا اور حضرت عمر فاروق ؓ نے جو کچھ کہا وہ اظہار عجزوبیچارگی، رحمت خداوندی کے تئیں بھر پور امیدواری اور نیاز مندی اور درخواست گزاری کے قبیل سے تھا اور حضرت عمر فاروق ؓ نے جو کچھ کہا وہ مصلحت و حکمت اور تسلیم ورضا کے قبیل سے تھا، اسی لئے آنحضرت ﷺ نے دونوں کی رعایت ملحوظ رکھی کہ پہلے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی درخواست کو قابل اعتناء قرار دیا اور ان کو وہ جواب نہیں دیا جو حضرت عمر فاروق ؓ کی تصدیق کر کے ان کو بھی مزید پسندیدگی عنایت فرما دی! اس بات کو ایک دوسرے نکتہ نظر سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی درخواست کا مثبت جواب دے کر گویا یہ ظاہر فرمایا کہ عمل کے راستہ پر لگنے اور دین شریعت کی طرف متوجہ رہنے میں ایک بڑا دخل بشارت کا بھی ہے لہٰذا آپ ﷺ نے اس بشارت کو ( کہ اللہ تعالیٰ ایک بہت بڑی تعداد کو بلا حساب جنت میں داخل کرے گا) اور زیادہ وسعت عطا فرمائی پھر آپ ﷺ نے حضرت عمر فاروق ؓ کے قول کی تصدیق کر کے اس طرف اشارہ کیا کہ۔۔۔ عمر ؓ نے جو بات کہی ہے وہ بشارت ہی ہے بلکہ پہلی بشارت سے بھی بڑی بشارت ہے۔ اس اعتبار سے دونوں کا مافی الضمیر ایک ہی تھا۔
Top