مشکوٰۃ المصابیح - دیدار الٰہی کا بیان - حدیث نمبر 5560
دیدار الہٰی کا بیان
رؤیۃ اللہ یا دیدار الہٰی کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا اور اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی یہ سعادت مومنین کو آخرت میں نصیب ہوگی جس کی تفصیل و وضاحت کے لئے یہ باب قائم کیا گیا اور اس موضوع سے متعلق احادیث اس میں نقل کی گئی ہیں۔ حق تعالیٰ کی رویت عقلا ناممکن نہیں اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ایک ایسی حقیقت ہے جس کا وجود عقلا بھی درست ہے اور اس دیدار کے لئے اللہ تعالیٰ کا کسی خاص جگہ (مقام پر اور کسی خاص سمت وجہت میں موجود وقائم ہونا نیز اس کی ذات کا اور دیکھنے والوں کا آمنے سامنے ہونا قطعی ضروری اور شرط کے درجہ کی چیز نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی ذات اور اپنے وجود کے اعتبار سے جو کچھ بھی ہے اسی حیثیت کے ساتھ اس کا دیکھا جانا ممکن ہے اگرچہ وہ جسم وجسمانیت سے مارواء اور مکان وجہت کی قید سے آزاد ہے۔ رہی یہ بات کہ چیز مرئی (یعنی کھلی آنکھوں سے نظر آنے والی چیز) کو دیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ جسم ہو، کسی خاص جگہ ومقام پر موجود قائم ہو اور نگاہ کی سمت وجہت میں ہو تو دیکھنے میں ان چیزوں کا عمل دخل ہونا دراصل اس لئے ضروری ہے کہ قدرت نے اسی طرح کا نظام جاری فرمایا ہے اور انسانی نگاہ وبصر کو اپنا فعل انجام دینے کے لئے ان اسباب کا پابند بنادیا ہے، اگر قادر مطلق اس جاری نظام اور عادت کے برخلاف ان عوامل کے بغیر بھی کسی کو کوئی چیز دکھانا چاہے تو بیشک اس پر قادر ہے اور ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔ پس اس میں کوئی خلاف عقل بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کل قیامت کے دن انسانی نگاہ میں بصیرت یعنی چشم قلب کی قوت رکھ دے کہ جس طرح آج دنیا میں اہل ایمان کو بصیرت سے پاتے اور دیکھتے ہیں کل کو آخرت میں بصر یعنی سر کی آنکھوں سے اس کو دیکھیں گے۔ رؤیت کا تعلق آخرت سے ہے تمام علماء امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حق تعالیٰ کا یہ دیدار تمام اہل ایمان کو آخرت میں نصیب ہوگا اس کا ثبوت وہ قرآنی آیات، احادیث صحیحہ، اجماع صحابہ وتابعین اور اقوال ائمہ جو اس ضمن میں مذکور و منقول ہیں تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حق تعالیٰ کے اس دیدار کے منکر ہیں انہوں نے دیدار الہٰی سے متعلق قرآنی آیات و احادیث اور منقول دلیل کی جس طرح تاویل کی ہے، اس کی تفصیل اور علماء حق کی طرف سے ان کی تاویلات کے مضبوط جوابات مختلف تحقیقی کتابوں میں مذکور ہیں۔ عورتیں بھی روایت سے محروم نہ رہیں گی عورتوں کے بارے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ ان کو دیدار ہوگا اور بعض انکار کرتے ہیں لیکن درست یہ ہے کہ عورتیں اس سعادت سے محروم نہ رہیں گی مردوں کی طرح ان کو بھی حق تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا لیکن بعض حضرات نے کہا ہے کہ ان (عورتوں) کو بعض خاص ایام میں جیسے جمعہ کے ایام میں یا عیدین کے دن ہی دیدار کی سعادت ملے گی جو عام بازیابی کے اوقات ہونگے۔ جو حضرات مطلقاً عورتوں کے دیدار کے منکر ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ عورتیں چونکہ خیموں میں پردہ نشین ہوں گی جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے حور مقصورات فی الخیام لہٰذا ان کو دیدار کیسے ہوسکتا ہے، یہ ایک ناقابل التفات بات ہے کیونکہ اول تو دیدار الہٰی کے بارے میں جو آیات و احادیث منقول ہیں ان میں کوئی خصوص مذکور نہیں ہے بلکہ وہ سب عموم پر محمول ہیں اور مردوں اور عورتوں سب کو شامل ہیں دوسرے یہ کہ عالم آخرت کو دنیا میں قیاس کرنا اور وہاں عورتوں کے خیمے میں رہنے کو دنیا کے پردہ پر منطبق کرنا بجائے خود غلط ہے کیونکہ جنت کے خیمے (کہ جن میں وہاں کی عورتیں رہیں گی) پردہ و حجاب کو مستلزم نہیں ہوں گے، علاوہ ازیں یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ فاطمہ زہراء، خدیجہ کبری، عائشہ صدیقہ ؓ اور دوسری امہات المومنین نیز ان جیسی دیگر عظیم خواتین جو لاکھوں کروڑوں مردوں سے زیادہ عظمت و فضیلت رکھتی ہیں آخر کس طرح دیدار الہٰی کی سب سے بڑی سعادت سے محروم رہ سکتی ہیں۔ جنات اور ملائکہ کو بھی اللہ کی رویت حاصل ہوگی جنات اور ملائکہ کے بارے میں بھی اختلافی اقوال ہیں کہ آیا ان کو دیدار الہٰی نصیب ہوگا یا نہیں؟ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے علاوہ دیگر فرشتوں کو اللہ کے دیدار کی سعادت حاصل نہیں ہوگی اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) بھی اس سعادت سے ایک ہی بار مشرف ہوں گے اور اسی طرح جنات بھی دیدار الہٰی سے محروم رہیں گے لیکن اس سلسلہ میں صحیح و درست قول یہی ہے کہ دیدار الہٰی کی سعادت تمام اہل ایمان کے لئے ہے کیا انسان کیا فرشتے اور کیا جنات۔ دنیا میں اللہ کی رویت یہ مسئلہ بھی مختلف فیہ ہے کہ کیا اس دنیا میں بحالت بیداری کھلی آنکھوں سے اللہ کا دیدار ہوسکتا ہے؟ اس سلسلہ میں ارباب تحقیق نے اس قول کو اختیار کیا ہے کہ حق تعالیٰ کا دیدار دنیا میں بھی ممکن تو ہے لیکن بالاتفاق غیر واقع ہے، رہی یہ بات کہ آنحضرت ﷺ کو شب معراج میں اللہ کا دیدار ہونا امر واقع ہے تو یہ استثنائی صورت ہے اگرچہ بعض حضرات نے اس سے اختلاف کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو شب معراج میں بچشم سر اللہ کا دیدار ہوا تھا یہ ایک بحث ہے جو آگے متعلقہ احادیث کی

تشریح
میں بیان ہوگی، بہر حال محدثین فقہاء متکلین اور مشائخ طریقت سب اس پر اتفاق رکھتے ہیں کہ نہ آج تک اس دنیا میں کسی کو بھی، خواہ وہ کوئی بڑے سے بڑا ولی ہی کیوں نہ ہو، اللہ کا دیدار حاصل ہوا ہے نہ اولیاء اللہ اور مشائخ میں سے کسی نے اس کا دعوی کیا ہے اور نہ آئندہ کسی کو حاصل ہوسکتا ہے، بلکہ مشائخ نے متفقہ طور پر یہاں تک کرتے ہیں) تو اس کی تکذیب کرنا اور اس کو گمراہ قرار دینا لازم ہے۔ فقہ شافعی کی مستند کتاب انوار میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ میں اس دنیا میں بچشم سر عیاناً خدا کو دیکھتا ہوں اور اللہ مجھ سے بالمشافہ گفتگو کرتا ہے تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ جب اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رؤیت ممکن ہے اور انسانی حاسہ بصر میں ایسا کوئی نقص بھی نہیں کہ کسی چیز کو دیکھنے میں رکاوٹ پیش آئے تو پھر حق تعالیٰ کے دیدار نہ ہونے کا سبب کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ دیکھنا اور نظر آنا دراصل نظام قدرت اور تخلیق الہٰی کا سبب ہے نہ کہ اس کی اصل علت اور حاسہ بصر ہے جو انسان اپنی آنکھوں میں لئے پھرتا ہے۔ حاسہ بصر تو صرف ایسا ظاہری سبب ہے جس کو حق تعالیٰ نے ایک خاص نظام اور معمول کے تحت ذریعہ بنادیا ہے اگر وہ کسی کو دیکھنا چاہے تو آنکھوں کی بنیائی کے بغیر بھی دکھا سکتا ہے اور اگر کسی کو نہ دکھانا چاہے تو وہ کھلی آنکھ اور مضبوط بنیائی رکھنے کے باوجود نہیں دیکھ سکتا مثلا ایک بڑا پہاڑ سامنے ہو اور اللہ کسی کی آنکھوں میں دیکھنے کی صفت پیدا نہ کرے تو وہ اس پہاڑ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتا اسی طرح اگر کوئی اندھا شخص دنیا کے مشرقی کنارے پر ہو اور دنیا کے مغربی کنارے پر ایک مچھر پڑا ہو اور اللہ تعالیٰ اس اندھے کو وہ مچھر دکھانا چاہے تو یہ یقینا دیکھ سکتا ہے پس واضع ہوا کہ دیکھنا یا دکھانا نظام قدرت کے تحت ہے آنکھ کا عمل یا غیر عمل بیشک ہے لیکن آنکھ کا وہ عمل یا اس عمل کی وہ طاقت جس سے انسان دیکھنے پر قادر ہوتا ہے غیر محدود اور خود مختار نہیں ہے بلکہ اس کی کارکردگی اس حدتک ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اس کو کارگر کیا ہے حق تعالیٰ کی مصلحت چونکہ یہی ہے کہ وہ انسان کو دنیا میں اپنا دیدار نہ کرائے اس لئے اس نے حاسہ بصر میں وہ توانائی ہی نہیں رکھی جس سے اللہ کو دیکھا جاسکے۔ اس بات کو دنیا کی عام چیزوں پر قیاس کرنا ذہن و قیاس کی مہمل تابعداری ہے۔ خواب کی حالت میں اللہ کی رویت کیا خواب کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوسکتا ہے اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں لیکن صحیح یہی ہے کہ خواب کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نہ صرف ممکن امر واقع بھی ہے اور یہ از روئے عقل ونقل کچھ بعید بھی نہیں ہے ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ایک قلبی مشاہدہ ہے جس کا تعلق مثال سے ہوتا ہے نہ کہ مثل سے اور اللہ کا مثل نہیں ہے۔ بہرحال بحالت خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا اللہ رسیدہ لوگوں سے ثابت ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے سو مرتبہ اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا ہے۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل (رح) سے بھی منقول ہے کہ وہ فرماتے تھے، میں نے خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو دریافت کیا کہ وہ کون سا عمل ہے جو آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ فرمایا تلاوت قرآن کریم۔ پھر پوچھا کہ معانی ومطالب سمجھنے کے ساتھ یا اس کے بغیر! فرمایا خواہ معانی سمجھنے کے ساتھ تلاوت کرے یا اس کے بغیر ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب میں اللہ تعالیٰ کا دیدار اور اس کی رویت ہوسکتی ہے۔
Top