Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (4100 - 4341)
Select Hadith
4100
4101
4102
4103
4104
4105
4106
4107
4108
4109
4110
4111
4112
4113
4114
4115
4116
4117
4118
4119
4120
4121
4122
4123
4124
4125
4126
4127
4128
4129
4130
4131
4132
4133
4134
4135
4136
4137
4138
4139
4140
4141
4142
4143
4144
4145
4146
4147
4148
4149
4150
4151
4152
4153
4154
4155
4156
4157
4158
4159
4160
4161
4162
4163
4164
4165
4166
4167
4168
4169
4170
4171
4172
4173
4174
4175
4176
4177
4178
4179
4180
4181
4182
4183
4184
4185
4186
4187
4188
4189
4190
4191
4192
4193
4194
4195
4196
4197
4198
4199
4200
4201
4202
4203
4204
4205
4206
4207
4208
4209
4210
4211
4212
4213
4214
4215
4216
4217
4218
4219
4220
4221
4222
4223
4224
4225
4226
4227
4228
4229
4230
4231
4232
4233
4234
4235
4236
4237
4238
4239
4240
4241
4242
4243
4244
4245
4246
4247
4248
4249
4250
4251
4252
4253
4254
4255
4256
4257
4258
4259
4260
4261
4262
4263
4264
4265
4266
4267
4268
4269
4270
4271
4272
4273
4274
4275
4276
4277
4278
4279
4280
4281
4282
4283
4284
4285
4286
4287
4288
4289
4290
4291
4292
4293
4294
4295
4296
4297
4298
4299
4300
4301
4302
4303
4304
4305
4306
4307
4308
4309
4310
4311
4312
4313
4313
4314
4315
4316
4317
4318
4319
4320
4321
4322
4323
4324
4325
4326
4327
4328
4329
4330
4331
4332
4333
4334
4335
4336
4337
4338
4339
4340
4341
سنن ابنِ ماجہ - زہد کا بیان - حدیث نمبر 866
جنگ جمل
حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد مدینہ میں قاتلین عثمان اور بلوائیوں ہی کا دور دورہ تھا اس لئے سب سے پہلے انہوں نے اہل مدینہ کو ڈرا دھمکا کر انتخاب خلیفہ کے کام پر آمادہ کیا، عبداللہ بن سبا نے چونکہ اپنی پوری سازش اور تحریک میں حضرت علی ؓ کا نام اچھالا تھا اور ان ہی کو خلافت قائم کرنے کے نام پر لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا تھا اس لئے قدرتی طور پر بلوائیوں کی کثرت حضرت علی ؓ کو خلیفہ منتخب کرنے کی حامی تھی۔ اگرچہ حضرت علی ؓ نے حضرت عثمان ؓ کی شہادت سے پہلے ہی خلافت کے باغیوں سے اپنے تعلق کا انکار کیا تھا اور ان کی مدد کی درخواست کو ٹھکرا دیا تھا لیکن جب بلوائیوں نے ان سے اصرار کیا ادھر انہوں نے اہل مدینہ کی بھی کثرت آراء اپنے بارے میں دیکھی تو وہ خلافت کا بار سنبھالنے کے لئے تیار ہوگئے، تاہم جب لوگ بیعت کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے صفائی سے کہہ دیا کہ جب تک اصحاب بدر مجھ کو خلیفہ نہ تسلیم کرلیں میں بیعت نہیں لوں گا، یہ سن کر ان لوگوں نے جہاں تک ممکن ہوسکا اصحاب بدر کو جمع کر کے حضرت علی ؓ کی خدمت میں لائے اور اس طرح ان کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت ہوئی۔ خلیفہ بننے کے بعد حضرت علی ؓ کو سب سے پہلے جس مطالبے کا سامنا کرنا پڑا وہ حضرت عثمان ؓ کے قصاص کا تھا۔ انہوں نے حضرت عثمان ؓ کی زوجہ محترمہ سے قاتلوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے صرف دو اشخاص کا حلیہ بتایا لیکن ان کا نام نہ بتاسکیں۔ ظاہر ہے کہ حضرت علی ؓ بلا تشخص وتعین اور ثبوت فراہم ہوئے بغیر قاتلین عثمان کو سزا کیسے دے سکتے تھے۔ اس لئے قصاص کے مطالبہ کو تسلیم کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوگئی جب لوگوں نے بالخصوص حضرت طلحہ اور حضرت زبیر ؓ نے صرف حضرت علی ؓ سے اس مطالبہ پر اصرار کیا تو حضرت علی ؓ نے کہا کہ میں قاتلین عثمان سے قصاص ضرور لوں گا اور حضرت عثمان ؓ کے معاملے میں پورا پورا انصاف کروں گا لیکن ابھی تک بلوائیوں کا زور ہے اور ادھر خلافت کا زور پوری طرح مستحکم نہیں ہوا ہے اس لئے فی الحال میں اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتا، اطمینان اور استحکام حاصل ہونے کے بعد سب سے پہلے اسی معاملے کی طرف توجہ کروں گا۔ بس اسی جگہ سے حضرت علی ؓ کے خلاف بدگمانی کی فضا پیدا ہونا شروع ہوگئی، مسلمانوں بالخصوص بنو امیہ کے لوگوں کو یقین ہوگیا کہ حضرت عثمان ؓ کے قتل کا بدلہ نہیں لیا جائے گا اور قاتلان عثمان مزے اڑاتے پھریں گے، ادھر سبائیوں نے اس خوف سے کہ کہیں حضرت علی ؓ قتل عثمان کے بدلے میں ہمیں یہ سزا نہ دینے لگیں، اپنی سازش میں لگ گئے اور کوشش کرنے لگے کہ خلافت کو استحکام نصیب نہ ہو اور تمام مسلمان ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی اور عداوت میں مبتلا ہوجائیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ حج کے لئے مکہ تشریف لے گئی تھیں وہاں سے مدینہ واپس آرہی تھیں کہ راستے میں حضرت عثمان ؓ کی شہادت کا سانحہ سن کر پھر مکہ لوٹ آئیں ان کو حضرت علی ؓ کی خلافت کی خبر بھی ملی ساتھ ہی انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت علی ؓ قاتلان عثمان کو سزا دینے میں تامل کر رہے ہیں، چناچہ وہ مکہ آئیں اور لوگوں کو ان کی اس طرح واپسی کا حال معلوم ہوا تو وہ آ کر ان کی سواری کے گرد جمع ہوگئے انہوں نے مجمع کے روبرو تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ میں خود خون عثمان کا بدلہ لونگی۔ بنو امیہ کے تمام لوگوں اور مکہ کے عثمانی گورنر نے ان کی حمایت کا اعلان کیا۔ حضرت طلحہ، حضرت زبیر ؓ مدینہ سے مکہ آئے تو وہ دونوں بھی حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ ہوگئے، کچھ عرصہ تیاریوں میں لگا اور پھر حضرت عائشہ ؓ اپنے تمام حامیوں کو لے کر بصرہ روانہ ہوئیں تاکہ وہ ان سے فوجی امداد لے کر آگے کی کاروائی شروع کریں راستے میں کچھ لوگ ان سے جدا بھی ہوگئے۔ خود حضرت عائشہ ؓ نے ایک مقام پر یہ ارادہ کرلیا کہ اپنے ارادہ سے باز آ کر واپس ہوجائیں مگر مسلمانوں کو باہم محاذ آرا کرنے پر ساشیوں کے جو لوگ متعین تھے انہوں نے کچھ ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ کارواں کو پھر آگے بڑھنا پڑا، بصڑہ کے قریب پہنچ کر ام المومنین خیمہ زن ہو گیں، گو امیر بصرہ نے ان کی مدد کرنے سے انکار کیا مگر عام لوگوں نے ان کی حمایت کی اور ان کے لشکر میں شامل ہوگئے، حضرت عائشہ ؓ اپنا وہ لشکر لے کر مقام امربد تک آپہنچیں، اس کے بعد امیر بصرہ بھی اپنا لشکر لے کر وہاں آگیا اور دونوں لشکر ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوگئے، دونوں کے درمیان جنگ ہوئی اور گورنر بصرہ کی فوج شکست کھا کر بھاگ کھڑی ہوئی اور ام المومنین وغیرہ کا بصرہ پر قبضہ ہوگیا۔ حضرت علی ؓ کو جب یہ صورت حال معلوم ہوئی تو وہ ایک بڑا لشکر لے کر بصڑہ روانہ ہوئے ادھر بعض دور اندیش اور صاحب بصیرت حضرات کی طرف سے ام المومنین اور حضرت علی ؓ کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش ہونے لگی چونکہ ام المومنین اور حضرت علی ؓ دونوں کے قلوب صاف تھے اور دونوں ہی اس باہی محاذ آرائی پر سخت دل گرفتہ تھے، اس لئے جب م صالحین نے دونوں کے دلوں سے ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیاں دور کرا کے باہمی صلح و صفائی کا میدان ہموار کرلیا اور مصالحت یقین ہوگئی تو عین موقع پر عبداللہ بن سبا جو اپنے ساتھیوں کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ حضرت علی ؓ کے لشکر میں موجود تھا اپنی پرانی یہودی سازش کے تحت متحرک ہوگیا اور جس دن صلح نامہ پر دستخط ہونے والے تھے اس کی صبح سپیدہ سحر نمودار ہونے سے پہلے سپاہیوں نے اچانک ام المومنین کے لشکر پر حملہ کردیا اور اس طرح دونوں طرف کی فوجیں اس بدگمانی میں پڑ کر کہ فریق مخالف نے مصالحت کی کوشش ٹھکرا کر جنگ کرنے کا ارادہ کرلیا ہے، باہم برسر پیکار ہوگئیں، ام المومنین نے اس موقع پر بھی جنگ رکوانے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لئے اونٹ پر ہودج میں بیٹھ کر میدان جنگ میں آئیں لیکن چونکہ دونوں طرف کے جذبات بھڑک اٹھے تھے اس لئے میدان جنگ میں ان کی بہ نفس نفیس آمد دونوں طرف سے جنگ کے شعلے کو بھڑکانے کا مزید سبب بن گئی جم کر لڑائی ہوئی اور جنگ کا سارا زور حضرت ام المومنین کے اونٹ کے ارگرد رہا، اسی مناسبت سے اس جنگ کو جنگ جمل یعنی اونٹ کی لڑائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سازشیوں کی سازش لوگوں کو بھڑکاتی رہی اور مسلمانوں کی تلوار اپنے ہی بھائیوں کا گلا کاٹنے میں مصروف رہی۔ حضرت عائشہ ؓ نے آخری طور پر جنگ بند کرانے کی ایک اور کوشش کی لیکن عبداللہ بن سبا کے لوگوں کی وجہ سے وہ کوشش بھی ناکام ہوگئی۔ ام المومنین کا اونٹ لڑائی اور کشت وخون کا مرکز بنا ہوا تھا۔ چاروں طرف سے حضرت عائشہ ؓ کے کجاوہ پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی، اہل بصرہ پوری جان نثاری کے ساتھ ان تیروں کو اپنے اوپر لے جا رہے تھے اور اونٹ کے چاروں طرف لاشوں کے انبار لگ گئے، آخرش حضرت علی ؓ کے لشکر والوں نے ایک زور کا دھاوا بولا اور ایک شخص نے موقع پا کر اونٹ کے پاؤں میں تلوار ماری اور چلا کر سینہ کے بل بیٹھ گیا اونٹ کے گرتے ہی اہل بصرہ منتشر ہوگئے اور جنگ ختم ہوگئی۔ اس جنگ میں حضرت عائشہ ؓ کی طرف سے لڑنے والوں کی تعداد تیس ہزار تھی جن میں سے نو ہزار آدمی میدان جنگ میں کام آئے۔ اس کے بعد اگلے دن حضرت علی ؓ بصرہ میں داخل ہوئے تمام اہل شہر نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور بعد میں حضرت علی ؓ نے ام المومنین کو پورے ادب و احترام کے ساتھ بصرہ سے روانہ فرمایا اور طرفین کے درمیان ہر طرح صلح و صفائی ہوگئی۔ یہ واقعہ ٣٦ ھ کے وسط پیش آیا اور یہ یہودیوں کی گھناؤنی سازش کا دوسرا حملہ تھا جس سے اہل اسلام کو زبردست دھچکا لگا اور مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا۔
Top