مشکوٰۃ المصابیح - سیدالمرسلین کے فضائل ومناقب کا بیان - حدیث نمبر 5671
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما من الأنبياء من نبي إلا قد أعطي من الآيات ما مثله آمن عليه البشر وإنما كان الذي أوتيت وحيا أوحى الله إلي وأرجو أن أكون أكثرهم تابعا يوم القيامة . متفق عليه
سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم :
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا انبیاء میں سے ہر ایک نبی کو معجزات میں صرف اتنا دیا گیا جس پر انسان ایمان لاسکے اور جو معجزہ مجھ کو ملاوہ اللہ کی وحی ہے جو اس نے میری طرف بھیجی (اور جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے) اس کی بناء پر مجھے یقین ہم کہ قیامت کے دن میرے ماننے والوں کی تعداد تمام انبیاء کے ماننے والوں سے زیادہ ہوگی۔ (بخاری ومسلم )

تشریح
مطلب یہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام چونکہ مخلوق کے سامنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسالت ونبوت کا دعوی کرتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو کچھ ایسے معجزے عطا فرماتا ہے جس کو وہ اپنے دعوے کی دلیل وبرہان کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں، چناچہ جتنے بھی نبی اور رسول اس زمین پر آئے ان کو کسی نہ کسی نوعیت کا ایسا معجزہ دیا گیا جس کو دیکھ کر عقل سلیم رکھنے والا انسان اس نبی کی تصدیق کرسکے اور اس پر ایمان لاسکے لیکن آنحضرت ﷺ سے پہلے جس نبی کو جو بھی معجزہ دیا گیا وہ اس نبی کے زمانہ اور اس کی حیات تک مخصوص اور باقی رہا، اس نبی کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے ساتھ اس کا معجزہ بھی ختم ہوگیا، مثلا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں سحر اور جادو کا زبردست چرچا تھا، بڑے بڑے جادوگر اپنے فن کا کمال دکھایا کرتے تھے اور لوگ ان کے فن کے کمال سے متاثر ہوتے تھے، چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یدبیضا اور عصا کا معجزہ دیا گیا ان کے دونوں معجزوں نے تمام چھوٹے بڑے جادوگروں کا چراغ گل کردیا اور نہ صرف عام لوگوں کو بلکہ خود ان جادوگروں کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عظمت کا اعتراف کرنا پڑا، اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں طب و حکمت کا بڑا زور تھا اس وقت ایسے ایسے قابل اور ماہر فن طبیب اور حلیم موجود تھے جو پیچیدہ سے پیچیدہ دکھ اور بیماری کو جڑ سے اکھیڑ دیا کرتے تھے، چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہ معجزہ عطا ہوا کہ وہ مردوں کو زندہ کردیتے تھے، کوڑھی کو تندرست اور اندھے کو بینابنا دیتے تھے، اس طرح ان کا یہ معجزہ اپنے زمانہ کے نہایت ترقی یافتہ طب و حکمت پر غالب رہا، لیکن نہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ ان کے بعد باقی رہا اور نہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کو دائمی حیثیت حاصل ہوئی۔ تمام انبیاء کے برخلاف آنحضرت ﷺ کو قرآن کریم کی صورت میں جو سب سے بڑا معجزہ عطا ہوا اس کو دائمی حیثیت حاصل ہوئی آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں فصاحت و بلا غت کا زور تھا، عرب فصحاء کا دعوی تھا کہ ان کی فصاحت و بلاغت کے سامنے دنیا کے تمام لوگ گونگے ہیں چناچہ آنحضرت ﷺ پر قرآن کریم نازل کیا گیا جس کی فصاحت و بلاغت نے عرب کے بڑے سے بڑے فصیح وبلیغ کی فصاحت و بلاغت کو مانند کردیا، اپنی زبان دانی اور معجز بیانی کا بلند بانگ دعوی کرنے والے مغلوب ہوگئے، تمام فصیح مل کر بھی قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت جیسا کلام بھی پیش نہ کرسکے اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس عظیم معجزہ کو قیامت تک کے لئے باقی رکھا جو ہر زمانے اور ہر طبقہ میں سید العٰلمین ﷺ کی نبوت و رسالت کی صداقت پر پوری حقانیت اور یقین کے ساتھ گواہی پیش کرتا رہا ہے اور پیش کرتا رہے گا۔ لہٰذا آنحضرت ﷺ نے اپنے اس یقین کا اظہار کیا کہ مجھے عطا کیا جانے والا یہ عظیم معجزہ چونکہ قیامت تک باقی رہے گا اور لوگ برابر اس پر لاتے رہیں گے اس لئے قیامت کے دن اکثریت ان اہل ایمان کی ہوگی جو میری نبوت و رسالت پر عقیدہ رکھنے والے اور میرے اس معجزہ قرآن کریم کو ماننے والے ہونگے۔
Top