مشکوٰۃ المصابیح - نبی کریم ﷺ کے اسماء مبارک اور صفات کا بیان - حدیث نمبر 5704
وعن أنس قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم ليس بالطويل البائن ولا بالقصير وليس بالأبيض الأمهق ولا بالآدم وليس بالجعد القطط ولا بالسبط بعثه الله على رأس أربعين سنة فأقام بمكة عشر سنين وبالمدينة عشر سنين وتوفاه الله على رأس ستين سنة وليس في رأسه ولحيته عشرون شعرة بيضاء وفي رواية يصف النبي صلى الله عليه و سلم قال : كان ربعة من القوم ليس بالطويل ولا بالقصير أزهر اللون . وقال : كان شعر رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى أنصاف أذنيه وفي رواية : بين أذنيه وعاتقه . متفق عليه وفي رواية للبخاري قال : كان ضخم الرأس والقدمين لم أر بعده ولا قبله مثله وكان سبط الكفين . وفي أخرى له قال : كان شئن القدمين والكفين
آنحضرت ﷺ کے قدوقامت وغیرہ کا ذکر :
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا قد نہ تو بہت لمبا تھا اور نہ ٹھگنا، آپ ﷺ کا رنگ نہ بالکل سفید تھا اور نہ بالکل گندمی یعنی مائل بہ سیاہی آپ ﷺ کے سر کے بال نہ بالکل خمدار تھے اور نہ بالکل سیدھے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس وقت مبعوث فرمایا (یعنی منصب رسالت پر فائز کیا) جب کہ آپ ﷺ کی عمر پورے چالیس سال کی ہوگئی تھی، پھر آپ ﷺ نے دس سال مکہ میں قیام فرمایا (دس سال مدینہ میں اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ساٹھ سال کی عمر میں وفات دی، اس وقت آپ ﷺ کے سر مبارک اور داڑھی میں صرف بیس بال سفید تھے۔ ایک اور روایت میں حضرت انس ؓ نے نبی کریم ﷺ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے یہ کہا کہ آپ ﷺ لوگوں میں میانہ قد تھے نہ لمبے تھے نہ ٹھگنے، آپ ﷺ کا رنگ نہایت صاف اور چمکدار تھا۔ حضرت انس ؓ نے بیان کیا آپ ﷺ کے سر کے بال آدھے کانوں تک تھے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (آپ ﷺ کے سرکے بال) کانوں اور شانوں کے درمیان تک لمبے تھے ( بخاری ومسلم) ایک اور روایت میں، جس کو بخاری نے نقل کیا ہے اس طرح ہے کہ حضرت انس ؓ نے بیان کیا آنحضرت ﷺ کا سر مبارک بڑا تھا اور پاؤں مبارک پرگوشت تھے، میں نے آپ جیسا (وجیہہ وشکیل انسان) نہ تو آپ ﷺ سے پہلے دیکھا تھا اور نہ آپ ﷺ کے بعد دیکھا اور آپ ﷺ کی ہتھیلیاں فراخ تھیں۔ بخاری ہی کی روایت میں ہے کہ حضرت انس نے بیان کیا! آنحضرت ﷺ کے دونوں بازو اور ہتھیلیاں گدازا ور پر گوشت تھیں۔

تشریح
قد نہ تو بہت لمبا تھا نہ ٹھگنا۔ کا مطلب یہ کہ آپ ﷺ کا قد میانہ مائل بہ درازی تھا جس کو ہمارے محاورے میں نکلتا قد کہتے ہیں۔ بعض روایتوں میں جو یہ آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کسی مجمع میں کھڑے ہوتے تو سب سے بلند دکھائی دیتے تھے، اگرچہ اس مجمع میں دراز قد لوگ بھی ہوتے تھے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ﷺ کا قد بہت زیادہ دراز تھا بلکہ اس کا مقصد آپ ﷺ کی اعجازی حیثیت کو بیان کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو جو عظمت و رفعت عطا فرمائی تھی وہ ہر موقع پر آپ ﷺ کے قد وقامت سے بھی ظاہر ہوتی تھی یہاں تک کہ اگر آپ دراز قد لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے تو اللہ تعالیٰ آپ ﷺ ہی کے وجود کو سب سے زیادہ نمایاں رکھتا تھا۔ آپ ﷺ کا رنگ نہ بالکل سفید تھا۔۔۔۔۔۔ الخ۔۔ کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی رنگت نہ تو چونے کی طرح بالکل سفید تھی جس میں سرخی کی جھلک بھی نہیں ہوتی اور نہ بہت گہری گندمی تھی بلکہ ایسی گندم گوں تھی جس کو سرخ سفید رنگ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ کے سر مبارک کے بال نہ تو اتنے زیادہ گھونگھرلے تھے جیسے افریقی اور حبشی لوگوں کے ہوتے ہیں اور نہ بالکل سیدھے تھے بلکہ ان دونوں کے بیچ بیچ تھے۔ مدینہ میں آنحضرت ﷺ کے قیام کی مدت دس سال تو بالاتفاق ثابت ہے اور اس میں کوئی اختلافی روایت نہیں ہے لیکن منصب رسالت پر فائز ہونے کے بعد مکہ میں قیام کی مدت کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں۔ تحقیقی طور پر جو قول صحیح مانا گیا ہے وہ تیرہ سال کی مدت کا ہے اس اعتبار سے آنحضرت ﷺ کی عمر تریسٹھ سال ہوتی ہے پس اس روایت میں جو ساٹھ سال کہا گیا ہے تو اس کی توجیہہ یہ ہے کہ راوی نے اس روایت میں کسور کے ذکر کو اہمیت نہ دیتے ہوئے تیرہ سال کو دس سال کہا اور تریسٹھ سال کو ساٹھ سال کہا، کیونکہ اس زمانہ میں عام طور پر یہ رواج تھا کہ اعداد و شمار کو بیان کرتے وقت کسور کو ذکر کرنا زیادہ ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ آنحضرت ﷺ کے سرکے بالوں کی لمبائی کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں، دو روایتیں تو یہاں نقل ہوئیں، ایک روایت میں دونوں کانوں کی لوتک کے الفاظ ہیں اور ایک روایت میں کاندھوں کے قریب تک کا ذکر ہے۔ روایتوں کے اس اختلاف کا سبب دراصل یہ ہے کہ جس وقت آپ ﷺ اپنے بالوں کو تیل اور کنگھی سے آراستہ کئے ہوئے ہوتے اس وقت بال لمبے معلوم ہوتے اور جب بالوں میں تیل نہ ہوتا اور نہ آپ ﷺ کئے ہوئے ہوتے تو اس وقت بال چھوٹے معلوم ہوتے، اس طرح جیسا کہ مجمع البحار میں لکھا ہے جب بالوں کی اصلاح کرائے ہوئے زیادہ دن گذرجاتے تھے تو قدرتی طور پر بال لمبے ہوجاتے تھے اور جب اصلاح کر الیتے تھے تو بالوں کی لمبائی کم ہوجاتی تھی، جس شخص نے اس میں سے جس حالت میں آپ ﷺ کے بالوں کو دیکھا اس کے مطابق ان کی لمبائی کو ذکر کیا۔ مجمع البحار کی اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ وقتا فوقتا اپنے بالوں کو موزوں مقدار میں کٹواتے رہتے تھے، جہاں تک بالوں کو منڈوانے اور سربالکل صاف کرانے کا تعلق ہے تو اس کا ثبوت کسی روایت سے نہیں ملتا۔ ہاں صرف حج اور عمرے کے موقع پر آپ ﷺ کا سر منڈوانا ضرورثابت ہے۔ سر مبارک بڑا اور پاؤں پرُگوشت تھے پیروں کاموٹا یعنی پرگوشت ہونا شجاعت اور ثابت قدمی کی علامت ہے جب کہ سرکا بڑا ہونا سرداری عظمت اور عقلمندی کی نشانی سمجھا جاتا تھا اسی طرح آنحضرت ﷺ کی دونوں ہتھیلیاں بھی بہت گداز اور پرگوشت تھیں اور یہ چیز بھی قوت و شجاعت کی علامت مانی جاتی ہے۔
Top