مسند امام احمد - - حدیث نمبر 5745
وعن عائشة قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يخصف نعله ويخيط ثوبه ويعمل في بيته كما يعمل أحدكم في بيته وقالت : كان بشرا من البشر يفلي ثوبه ويحلب شاته ويخدم نفسه . رواه الترمذي
اپنا جوتا خود گانٹھ لیتے تھے۔
اور حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ اپنی جوتیاں خود گانٹھ لیتے تھے، اپنا (نیا یا پرانا) کپڑا خود سی لیتے تھے اور اپنے گھر کا کام کاج اسی طرح کرتے تھے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے گھر کا کام کاج کرتا ہے۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے مزید فرمایا آنحضرت ﷺ ایک ایسے ہی انسان تھے جیسے دوسرے انسان ہوتے ہیں آپ ﷺ اپنے کپڑے کی جوئیں خود ہی دیکھتے تھے، اپنی بکری کا دودھ خود دوہتے تھے اور اپنی خدمت آپ ﷺ کرلیتے تھے (یعنی اپنا ذاتی کام خود ہی کرلیا کرتے تھے کسی دوسرے سے کرنے کے لئے کم ہی کہا کرتے تھے۔ (ترمذی)

تشریح
اپنے کپڑے کی جوئیں خود ہی دیکھتے تھے۔ سے کیا مراد ہے کہ وقتا فوقتا اپنے کپڑوں کو خود دیکھا کرتے تھے کہ کہیں ان میں جوئیں تو نہیں پڑگئیں ہیں۔ پس یہ بات اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں آیا ہے کہ جوئیں آپ ﷺ کو پریشان نہیں کرتی تھیں! نیز مواہب لدنیہ میں ہے کہ آپ ﷺ کے کپڑوں یا بدن مبارک کے کسی حصہ میں کبھی کوئی جوں نہیں پڑی۔ اسی طرح امام فخر الدین رازی نے نقل کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ ایسے ہی ایک انسان تھے۔۔۔۔ الخ۔۔ اس جملہ کے بارے میں طیبی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے یہ بات بطور تمہید فرمائی جس کا مقصد آگے کہی جانے والی بات کے پس منظر کو ظاہر کرنا تھا۔ دراصل حضرت عائشہ نے جب دیکھا اور سنا کہ کفار و مشرکین یہ کہتے ہیں کہ اگر محمد ﷺ اللہ کے نبی اور رسول ہوتے تو وہ اپنا رہن سہن اور طور طریقہ عام لوگوں کی طرح نہ رکھتے گویا ان کفار کے نزدیک اللہ کے رسول کو اس بادشاہ اور سردار کی طرح اپنی زندگی گذارنی چاہے تھی جو عام لوگوں کے رہن سہن اور طور طریقوں سے اجتناب کرتا ہے شان و شوکت کے ساتھ رہتا ہے، اپنی بڑائی اور دبدبہ کو ظاہر کرتا ہے۔ کفار کی اس بات کو قرآن نے بھی ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔ مال ہذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق۔ اس رسول کو کیا ہوا کہ وہ عام لوگوں کی طرح) کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ پس حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کفار کے اس خیال اور قول کی تردید میں فرمایا کہ آنحضرت ﷺ اللہ کی مخلوقات ہی میں سے ایک مخلوق تھے اور اسی طرح ایک انسان تھے جیسے اولاد آدم میں سے دوسرے انسان ہیں۔ اگر دوسرے انسانوں اور آپ ﷺ میں کوئی فرق ہے تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اپنی رسالت ونبوت کے منصب عظمی سے سرفراز فرمایا آپ ﷺ کو انسانیت کے اعلیٰ ترین قدروں سے مزین کیا اور آپ ﷺ کو اخلاق واطوار کی وہ خوبیاں عطا فرمائیں جن سے آپ ﷺ کی ذات آدمیت کے شرف و امتیاز کا مظہر اور نمونہ قرار پائی، جیسا کہ قرآن کریم میں بھی فرمایا گیا ہے قل انما انا بشر مثلکم یؤ حی الی۔ آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہارے جیسا ایک انسان ہوں بس فرق یہ ہے کہ) مجھ پر وحی آتی ہے۔ چنانچہ ذاتی عظمت اور اخلاق انسانی کی بلندی کی اس سے بڑی مثال اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ آپ ﷺ شرف و مرتبت کے سب سے اعلی مقام پر فائز ہونے کے باوجود ایک عام انسان جیسی زندگی گذارتے تھے اور اللہ عام بندوں کی طرح نہایت سادگی اور جفاکشی کے ساتھ رہتے تھے عام لوگوں کے ساتھ کے ساتھ خلط ملط، ان جیسا رہن سہن، ان جیسی محنت ومشقت اور ان کے ساتھ ہمدردی وغمگساری بھی تھی کہ تواضع و انکساری کو انسانی کردار کی بلندی سمجھا جائے اور اللہ تعالیٰ کے پیغام اور اس کی ہدایت کو اس کی مخلوق تک پہنچانے کی ذمہ داری کو ایک ایسا منصب جانا جائے، جس کے فرائض کی انجام دہی عوامی رابطہ کے بغیر ممکن نہیں اور عوامی رابطہ اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب اپنے نفس کو خود بینی وخود پسندی کے جال سے نکال کر اور ظاہر شان و شوکت سے اجتناب کرکے خود کو ایک عام انسان کی صورت میں پیش کیا جائے۔
Top