مشکوٰۃ المصابیح - آنحضرت کے اخلاق وعادات کا بیان - حدیث نمبر 5755
وعن عبد الله بن أبي أوفى قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يكثر الذكر ويقل اللغو ويطيل الصلاة ويقصر الخطبة ولا يأنف أن يمشي مع الأرملة والمسكين فيقضي الحاجة . رواه النسائي والدارمي
غریب ولاچار لوگوں کے ساتھ حسن سلوک :
اور حضرت عبداللہ ابن اوفی ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ ذکر میں زیادہ مشغول رہتے، لغو (فضول) باتیں بہت کم کرتے، نماز کو طویل اور خطبہ کو مختصر کرتے اور بیوہ و مسکین کے ساتھ چلنے میں کوئی عار محسوس نہ فرماتے اور ان کا کام کردیتے تھے۔ (نسائی ودارمی)

تشریح
ذکر سے مراد اللہ تعالیٰ کا ذکر اور ہر وہ چیز ہے جو ذکر اللہ سے تعلق رکھتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ زیادہ، یا مختلف نوعیتوں سے ہر وقت اور ہر لمحہ ہی آپ ﷺ ذکر اللہ میں مشغول رہتے تھے۔ لغو (فضول) باتوں سے مراد ہر وہ بات ہے جو ذکر اللہ کے علاوہ اور دنیاوی امور سے تعلق رکھتی ہو، واضح رہے کہ ایسے دنیاوی امور کا ذکر بھی، کہ جو مصلحت و حکمت سے خالی نہ ہو، ذکر حقیقی کے اعتبار سے فضول باتوں ہی میں شامل ہے، اسی لئے امام غزالی (رح) نے فرمایا تھا ضیعت قطعۃ من العمر العزیر فی تالیف البسیط والوسیط والوجیز۔ میں نے اپنی عمر عزیز کا حصہ اپنی کتابوں بسیط، وسیط اور وجیز کی تالیف میں ضائع کیا۔ گو ایسی دنیاوی باتیں جو حکمت و مصلحت سے خالی نہ ہوں حقیقی معنی میں لغو اور فضول باتوں کے حکم میں نہیں ہوتیں لیکن ان کی ظاہری صورت اور مبنیٰ کے اعتبار سے ان کی حقیقت سے قطع نظر کر کے ان پر لغو اور فضول کا اطلاق کیا گیا ہے، اسی تعبیر کو ظاہر کرنے کے لئے عارفین کا یہ قول ہے کہ حسنات الابرار سیأات المقربین۔ لغو کو اس کے حقیقی معنی بیکار لایعنی اور باطل میں مراد لینا یوں بھی صحیح نہیں ہوگا کہ آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے کبھی بھی کسی لغویات کا صدور نہیں ہوا اور نہ یہ ممکن تھا کیونکہ جب اللہ تعالیٰ تمام اہل ایمان کا یہ وصف بیان کرتا ہے والذین ہم عن اللغومعرضون۔ تو آنحضرت ﷺ کے بارے میں لغویات کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے۔ بعض حضرات نے جو یہ کہا ہے کہ یہاں قلیل (کم) کا لفظ عدم کے معنی میں استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کبھی کوئی لغویات زبان سے نہیں نکالتے تھے اور اس کی دلیل میں وہ حضرات کہتے ہی کہ قلیل کا لفظ کبھی مطلق نفی اور اظہار عدم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن میں فرمایا گیا ہے قلیلامایومنون۔ تو یہ قول اگرچہ لفظ لغو کے بارے میں بہت سی بحثوں کو ختم کردیتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے سیاق میں یہ قول زیادہ موزوں و مناسب معلوم نہیں ہوتا کیونکہ تکثیر کا لفظ یقل کے لئے جس معنی کا تقاضہ کرتا ہے وہ وہی ہے جو پہلے ذکر کیا گیا۔ نماز کو طویل اور خطبہ کو مختصر کرتے تھے، میں خاص طور پر جمعہ کی نماز مراد ہے کیونکہ خطبہ کے ذکر سے، یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ جہاں تک خطبہ کے اختصار کی بات ہے تو وہ یوں بھی درست ہے کہ آپ ﷺ اپنے خطبہ جمعہ میں جو الفاظ اور جملے استعمال فرماتے تھے وہ بےحد جامع ومانع تھے۔ ہر جملہ گوالفاظ کے اعتبار سے بہت مختصر مگر مفہوم ومعانی کے دریا اپنے اندر رکھتا تھا۔ ویسے خطبہ کی اختصار والی بات اکثر احوال کے اعتبار سے بیان کی گئی ہے ورنہ جب زیادہ نصیحت کرنا مقصود ہوتی تھی تو آپ تفصیل کے ساتھ لمبا خطبہ بھی ارشاد فرماتے تھے۔ بہرحال اس جملہ کا اصل مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ آپ کا خطبہ نماز کی بہ نسبت مختصر ہوتا تھا۔ نیز ایک اور حدیث میں جو باب الجمعہ میں گذر چکی ہے منقول ہے کہ نماز کا طویل ہونا اور خطبہ کا مختصر ہونا فہم و سمجھ اور دانشمندی کی علامت ہے۔ اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ نماز چونکہ مؤمن کی معراج اور پروردگار کی مناجات کا موقع ہے اس لئے طوالت ہی اس کے مناسب ہے جب کہ خطبہ کا تعلق لوگوں کی طرف متوجہ ہونے اور ان کو حق کی طرف بلانے سے ہے جس میں زور بیان اور اثراندازی کے لئے فصاحت و بلاغت پر توجہ دینی پڑتی ہے اور یہ چیز ایسی ہوتی ہے جس پر ریاء کا گمان کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے خطبہ کو مختصر کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔
Top