مشکوٰۃ المصابیح - حساب قصاص اور میزان کا بیان - حدیث نمبر 5466
وعن أبي موسى قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان يوم القيامة دفع الله إلى كل مسلم يهوديا أو نصرانيا فيقول هذا فكاكك من النار رواه مسلم .
مسلمانوں کے دشمن ان کے لئے دوزخ سے نجات کا عوضانہ ہوں گے
اور حضرت ابوموسی ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب قیامت کا دن آئے گا ( اور لوگوں کی ابدی نجات و عذاب کا فیصلہ سنایا جائے گا) تو اس وقت اللہ تعالیٰ ہر مسلمان ( مرد اور عورت) کو ایک یہودی یا ایک نصرانی کے حوالہ کر دے گا اور فرمائے گا کہ یہ شخص دوزخ سے تیری چھڑائی ہے یعنی دوزخ کی آگ سے تیری نجات کا سبب ہے۔ ( مسلم )

تشریح
فکک کے معنی ہیں گروی رکھی ہوئی چیز کو چھپانا! اور اسی سے فکاک ( ف کے زبر اور زیر دونوں کے ساتھ کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں وہ چیز جس کے ذریعہ گروی رکھی ہوئی چیز کو چھڑایا جائے! پس یہ شخص تیرا فکاک یعنی تیری چھڑائی ہے کا مطلب یہ ہوا کہ گویا مسلمان دوزخ کی آگ میں گروی ہے اور قیامت کے دن اس یہودی یا نصرانی کو اس ( مسلمان) کے بدلہ میں آگ میں بھیج کر اس کو اس آگ سے چھڑایا جائے گا اب اس بات کی تاویل یوں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مکلف کے لئے، کہ خواہ کافر ہو یا مؤمن جنت اور دوزخ میں ایک ایک جگہ مقرر کر رکھی ہے، لہذا جو شخص ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوا اس کی وہ جگہ کہ جو دوزخ میں تھی اس شخص کی جگہ کے ساتھ کہ جو جنت میں ہے بدل دی جائے گی اور جو شخص ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت نہیں ہوا اس کا معاملہ اس کے برعکس ہوگا، پس اس اعتبار سے یہ کافر لوگ گویا دوزخ کی آگ سے مؤمنوں کی نجات کا سبب ہوں گے اس سے واضح ہوا کہ مذکورہ بالا جملہ کی یہ مراد قطعا نہیں ہے کہ کافروں کو مؤمنوں کے گناہوں کے بدلہ میں دوزخ کے سپرد کیا جائے گا کیونکہ حق تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فیصلہ کردیا ہے کہ ولا تزروازرۃ وزراخری واضح رہے کہ یہودی و نصاری کی تخصیص محض علامتی ہے یعنی یہاں اصلی مراد تو کافر ہیں اور یہود و نصاری کا ذکر صرف اس بنا پر ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کی عداوت و دشمنی زیادہ مشہور ہے۔
Top