مشکوٰۃ المصابیح - حساب قصاص اور میزان کا بیان - حدیث نمبر 5471
وعن الحسن عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرض الناس يوم القيامة ثلاث عرضات فأما عرضتان فجدال ومعاذير وأما العرضة الثالثة فعند ذلك تطير الصحف في الأيدي فآخذ بيمينه وآخذ بشماله . رواه أحمد والترمذي وقال لا يصح هذا الحديث من قبل أن الحسن لم يسمع من أبي هريرة . وقد رواه بعضهم عن الحسن عن أبي موسى
قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں لوگ تین مرتبہ پیش ہونگے
اور حضرت حسن بصری، حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں کو ( اللہ تعالیٰ کے سامنے) تین مرتبہ پیش کیا جائے گا اور دو مرتبہ تو بحث وجرح اور عذر آرائی ہوگی اور جب تیسری مرتبہ پیش ہوں گے تو اس وقت ( چونکہ حساب، کتاب اور پوچھ گچھ کا مرحلہ نمٹ چکا ہوگا اس لئے) اعمال نامے اڑ اڑاکر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ جائیں گے پس ان میں سے کچھ لوگ ( کہ جو اہل سعادت اور خوش نصیب ہوں گے اپنے دائیں ہاتھوں میں اعمال نامے لیں گے اور کچھ لوگ ( کہ جو اہل شقاوت اور بدبخت ہوں گے) اپنے بائیں ہاتھوں میں اعمال نامے لیں گے اس روایت کو امام احمد اور ترمذی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ روایت اس اعتبار سے صحیح نہیں ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے حضرت حسن بصری کا سماع ثابت نہیں ہے بعض محدثین نے اس روایت کو حضرت حسن بصری سے اور انہوں نے ابوموسی اشعری سے نقل کیا ہے۔

تشریح
دو مرتبہ تو بحث وجرح اور عذر آرائی ہوگی۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب لوگ پہلی مرتبہ پیش ہوں گے تو اس وقت وہ اپنے گناہ و معصیت اور اپنی بد عملیوں کا اقرار و اعتراف نہیں کرینگے اور اپنے آپ کو مستوجب عذاب ہونے سے بچانے کی کوشش کریں گے یعنی حق تعالیٰ کے سامنے بحث و مباحثہ کریں گے اور کہیں گے کہ ہم تک کسی بھی نبی نے آپ کے احکام نہیں پہنچائے اور نہ کسی نے ہمیں یہ بتایا کہ ہمارا کون سا عمل درست ہے اور کون سا عمل نا درست! اور جب ہم تک ہدایت پہنچی ہی نہیں اور ہمارے سامنے برائی اور بھلائی کے راستوں کو واضح ہی نہیں کیا گیا تو ہمارے خلاف بدعملیوں اور گناہوں کی فرد جرم کیوں عائد ہو؟ لیکن جب اللہ تعالیٰ مختلف دلائل اور گواہوں کے ذریعہ یہ ثابت فرمادے گا کہ ان تک ہدایت کا پیغام پہنچایا تھا اور مختلف زمانوں میں اس کے پیغمبر اور رسول ان کے پاس اللہ کے احکام پہنچاتے رہے تھے جن کو انہوں نے یا تو قبول نہیں کیا یا ان پر صحیح طرح سے عمل نہیں کیا تو دوسری مرتبہ کی پیشی کے وقت وہ اپنے گناہوں اور اپنی بدعملیوں کا اقرار و اعتراف کریں گے اور پھر عذر آرائی کرنے لگیں کے مثلا کوئی تو یوں کہے گا کہ میں نے ازراہ سہو خطاکاروں کا راستہ اختیار کرلیا تھا، کوئی یوں کہے گا کہ میں جہالت و غفلت کے اندھیروں میں کھو گیا تھا اور اس کی وجہ سے ہدایت کے راستہ پر نہیں چل سکا اور کوئی یوں کہے گا کہ میں تیری رحمت کی امید پر کوتاہ عمل اور غفلت کا شکار ہوگیا تھا، غرض کہ ہر ایک اسی طرح کے عذر بیان کرے گا! اور پھر تیسری مرتبہ جب لوگوں کے تمام معاملات منقح ہو کر سامنے آجائیں گے اور ہر ایک کے عقیدہ وعمل کی چھان بین پوری ہوجائے گی تو پھر آخری فیصلہ ظاہر ہوجائے گا اور سب کے سامنے اہل ہدایت اور ضلالت کے درمیان فرق و امتیاز بالکل واضح ہوجائے گا جس کی صورت یہ ہوگی کہ جو لوگ جنت کی سعادت سے نوازے جانے والے ہوں گے ان کے نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں پہنچ جائیں گے اور جن کو دوزخ میں ڈالا جانا ہوگا ان کے نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں پہنچادئیے جائیں گے۔ اس حدیث کے بارے میں ترمذی نے جو کچھ کہا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ چونکہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے حضرت حسن بصری کا حدیث سننا ثابت نہیں ہے اس لئے حضرت ابوہریرہ ؓ سے ان کی اس روایت کی سند منقطع اور غیر متصل ہوئی جس کی بناء پر اس حدیث کو مذکورہ سند و روایت کے ساتھ صحیح نہیں کہا جاسکتا لیکن جزری نے تصحیح المصابیح میں کہا ہے کہ بخاری نے اپنی صحیح ( یعنی بخاری شریف) میں حضرت حسن بصری (رح) کی ایسی تین حدیثیں نقل کی ہیں جن کو انہوں نے ( یعنی حسن بصری نے) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے البتہ صحیح مسلم میں حضرت حسن بصری (رح) کی ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے جس کو انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کیا ہو بہر حال جزری کی بات سے قطع نظر بھی کرلیا جائے تو بھی اصل حدیث کی صحت پر اثر نہیں پڑتا کیونکہ بعض محدثین نے اس روایت کو حضرت حسن بصری (رح) سے اور انہوں نے حضرت ابوموسی اشعری ؓ سے نقل کیا ہے اور اس طریق سے اس روایت کی سند متصل ہوگی جس سے اصل حدیث کا صحیح ہونا ثابت ہوجاتا ہے! بعض حضرات نے کہا ہے کہ حضرت حسن بصری (رح) نے اس حدیث کو متعدد صحابہ کرام جیسے حضرت ابوموسی اشعری، حضرت انس ابن مالک اور حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ سے روایت کیا ہے۔
Top