مشکوٰۃ المصابیح - جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ - حدیث نمبر 5610
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : نحن أحق بالشك من إبراهيم إذ قال : ( رب أرني كيف تحيي الموتى ) ويرحم الله لوطا لقد كان يأوي إلى ركن شديد ولو لبثت في السجن طول ما لبث يوسف لأجبت الداعي . متفق عليه
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت لوط (علیہ السلام) اور حضرت یوسف (علیہ السلام) سے متعلق بعض اہم واقعات کا ذکر :
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ شک کرنے کے لائق ہیں، جب انہوں نے کہا تھا رب انیٰ کیف تحی الموتٰی (اے پروردگار مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح جلائے گا) اور اللہ تعالیٰ حضرت لوط (علیہ السلام) پر رحم کرے جو رکن شدید کا سہارا پکڑنا چاہتے تھے۔ اور اگر میں قید خانے میں اتنی طویل مدت تک رہتا جتنی مدت حضرت یوسف (علیہ السلام) رہے تو میں یقینا بلانے والے کی دعوت قبول کرلیتا۔ ( بخاری ومسلم)

تشریح
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جس شک کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تذکرہ قرآن کریم میں یوں ہے۔ (وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھ مُ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُ حْيِ الْمَوْتٰى قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَى ِنَّ قَلْبِىْ ) 2۔ البقرۃ 160) اور (وہ وقت قابل ذکر ہے) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کی کہ اے پروردگار مجھے دکھادے کہ تو مردوں کو کس طرح جلائے گا ارشاد ہوا کیا آپ (علیہ السلام) کو یقین نہیں ہے، عرض کی کہ ضرور ہے، لیکن (یہ درخواست) اس لئے ہے کہ قلب کو (اور) اطمینان ہوجائے۔ اور اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ شک کرنے کے لائق ہیں۔ تو اس کی وضاحت یہ ہے کہ جب مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تو صحابہ میں کچھ حضرات نے (آنحضرت ﷺ کی عظمت اور برتری ظاہر کرنے کے لئے) کہا کہ یہ شک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ہوا ہمارے حضرت محمد ﷺ نے اس طرح کا شک ظاہر نہیں کیا۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سنا تو فرمایا کہ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ شک کرنے کے لائق ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے ظاہری اسلوب سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نہ صرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے بلکہ اپنی ذات شریف کے لئے بھی مذکورہ شک کا اثبات کیا حالانکہ دونوں کا اس طرح کے شک میں مبتلا ہونا امر محال ہے کیونکہ انبیاء کرام صلوٰت اللہ وسلامہ اجمعین جن کی ذات ایمان وایقان کا اولین مظہر بلکہ اصل اور بنیاد ہوتی ہے اور جن کا وجود طمانیت وعرفان کا سرچشمہ ہوتا ہے، فطری طور پر شک وتردد سے محفوظ ومامون ہوتے ہیں، ان میں عدم ایقان اور شک وشبہ کے وجود کے کوئی معنی نہیں۔ لہٰذا مذکورہ ارشاد سے آنحضرت ﷺ کی مراد وہ نہیں ہے جس کا تقاضا ظاہری اسلوب کرتا ہے بلکہ آپ ﷺ کی اصل مراد یہ ہے کہ اس آیت کریمہ سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار سے جو درخواست کی اس کا تحریک احیا موتی کے نفس وقوع میں کوئی شک وشبہ تھا، وقوع پر تو ان کو پورا ایمان وایقان تھا، وہ صرف مراتب عرفان اور کمالات ایقان میں ترقی کے طلب گار تھے، علم الیقین سے اور آگے بڑھ کر علم الیقین کے درجہ پر پہنچنے کے متمنی تھے جس کو اطمینان قلبی سے تعبیر کیا، یعنی ان کا مدعا یہ تھا کہ احیاء موتی کے وقوع پر ایمان کے درجہ تک تو یقین اب بھی حاصل ہے، صرف یہ چاہتا ہوں کہ مشاہدہ بھی حاصل ہوجائے تاکہ اطمینان قلب کی دولت میں اور اضافہ ہو۔ ان صحابہ پر اسی بات کو واضح کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے یہ پیرایہ بیان اختیار فرماتے ہیں کہ دیکھو شک وتردد اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) میں راہ پاسکتا تو یقینا ہم میں بھی راہ پاتا اور تم یہ جانتے ہی ہو کہ ہم میں شک وتردد کا کسی طرح گذر نہیں ہوتا لہٰذا جان لو کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی ہماری ہی طرح کمال ایقان وعرفان کے درجہ پر فائز تھے اور ان کے دل و دماغ میں بھی کسی طرح کا کوئی شک وتردد راہ پائے ہوئے نہیں تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مذکورہ درخواست کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے یہاں کے بادشاہ وقت نمرود اور قوم کے لوگوں کے قلب و دماغ میں خدائے واحد کا یقین پیدا کرنے کے لئے یہ دلیل پیش کی کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے، تو اس موقع پر انہوں نے پروردگار کے حضور یہ درخواست گذاری تاکہ ان کی پیش کردہ دلیل سب کے مشاہدہ میں بھی آجائے۔ بحرحال آنحضرت ﷺ کے مذکورہ ارشاد گرامی کے بین السطور سے آنحضرت ﷺ کی ذات شریف پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی فضیلت و برتری کا اظہار ہوتا ہے حالانکہ آنحضرت ﷺ کا تمام انبیاء سے افضل وبرترہونا ثابت شدہ حقیقت ہے یہ باعث خلجان بات ہے، چناچہ اسی خلجان واشکال کو دور کرنے کے لئے شارحین نے لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تعلق سے یہاں جو کچھ فرمایا ہے وہ انکسار و تواضع کے طور پر ہے، یا یہ کہ آپ ﷺ کا یہ اشارہ اس وحی کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے کہ آپ تمام اولاد آدم (علیہ السلام) کے سردار اور سب سے افضل ہیں یہی توجیہ ہر اس حدیث کی ہے جو آنحضرت عدم فضیلت کا مفہوم ظاہر کرتی ہے۔ جو رکن شدید کا سہارا پکڑنا چاہتے تھے۔ رکن، اصل میں کسی بھی چیز کے مضبوط کنارے یا مضبوط ستون کو کہتے ہیں اور یہاں رکن شدید سے مراد مضبوط اور طاقت ور لوگوں کی جماعت ہے حدیث کے اس جملہ میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم اپنی بدعملی، سرکشی، بےحیائی اروخبث اخلاقی گرواٹ (ہم جنس یعنی مرد لڑکوں سے اختلاط) میں حد سے تجاوز کرگئی اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے ابلاغ حق، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اس پر مطلق کچھ اثر نہیں ہوا، تو آخر کار حق تعالیٰ کی طرف سے ان کی سزا و بربادی و ہلاکت کا فیصلہ ہوگیا، چناچہ عذاب کے فرشتے قوم لوط کے شہر سدوم میں اترے اور آدمیوں کی شکل و صورت میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے یہاں مہمان ہوئے، یہ فرشتے نہایت حسین و خوبصورت اور عمر میں نواجون لڑکوں کی شکل و صورت میں حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان مہمانوں کو دیکھا تو گھبراگئے اور ڈرے کہ بدبخت قوم کے لوگ میرے ان مہمانوں کی ساتھ نہ معلوم کیا سلوک کریں گے، اس وقت تک حضرت لوط (علیہ السلام) کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ اللہ کے پاک فرشتے ہیں اور اس بدبخت قوم کے لئے عذاب الہٰی کا فیصلہ لے کر آئے حضرت لوط (علیہ السلام) نے اسی پریشانی اور تردد میں تھے کہ قوم کو خبر لگ گئی اور یہ مطالبہ لے کر حضرت لوط (علیہ السلام) کے مکان پر چڑھ آئے کہ ان (مہمانوں) کو ہمارے حوالہ کرو، حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو اس وقت بھی بہت سمجھایا، ان کی بدفطری پر ان کو غیرت عار دلائی اور کوشش کی یہ بدبخت ان معزز اور پاکباز نوعمر مہمانوں کے تئیں اپنی بری نیت اور ارادہ بد سے باز آجائیں اور جب انہوں نے دیکھا کہ ان لوگوں کے سیاہ دلوں پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے اور سب کے سب ان کے مہمانوں کے ساتھ بداخلاقی پر تلے ہوئے ہیں، تب پریشان خاطر ہو کر انہوں نے فرمایا۔ لوان لی بکم قوۃ اواوی الی رکن شدید۔ کاش تمہارے مقابلہ کی مجھے (ذاتی) طاقت حاصل ہوتی یا (طاقتور ساتھیوں اور حمایتوں کی صورت میں) کوئی مضبوط سہارا ہوتا جس کا آسرا پکڑا جاسکتا ( اور ان مہمانوں کو تمہارے شر سے محفوظ رکھتا۔ پس آنحضرت ﷺ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی اسی حسرت و تمنا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ لوط (علیہ السلام) پر رحم کرے کہ وہ انسانی طاقت وقوت کا سہارا چاہنے لگے تھے حالانکہ اصل سہارا اللہ تعالیٰ کی قدرت و طاقت اور اس کی حفاظت و حمایت کا ہے کہ اہل عرب کے کلام کا یہ خاص اسلوب ہے کہ جب وہ کسی شخص کے ایسے قول وفعل کا ذکر کرتے ہیں جو تقصیر سے تعلق رکھتا ہو یا اس کو وہ کام و کلام نہ کرنا چاہے تھا کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو معاف فرمائے کہ اس نے ایسا کام کیا یا ایسی بات کہی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مذکورہ ارشاد کے ذریعہ کیا اس طرف اشارہ فرمایا کہ نعوذ باللہ حضرت لوط (علیہ السلام) اللہ کی قدرت پر بھروسہ نہیں رکھتے تھے جو کسی رکن شدید کی پناہ کے طالب ہوئے جواب ہے کہ ہرگز نہیں کیونکہ ایسا سمجھنا نہ صرف یہ کہ خلاف واقعہ ہم بلکہ انبیاء (علیہم السلام) کے طریق ادب کے بھی منافی ہے، جہاں تک حضرت لوط (علیہ السلام) کے رکن شدید کی پناہ طلب کرنے کا سوال ہے، تو حضرت لوط (علیہ السلام) اللہ کو بھول کر کسی اور کی پناہ کے طالب نہیں تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس وقت اپنی قوم کے ارادہ بد کو دیکھ کر اس قدر پریشان اور اس درجہ قابل رحم حالت میں تھے کہ طبعی طور پر ان کی یہ تمنا ہوئی کہ کاش! اللہ تعالیٰ میری مدد فرماتا اور اتنی طاقت وقوت عطا فرما دیتا کہ میں اسی وقت ان بدبختوں کو ان کی خباثت کا مزہ چکھا دیتا، چناچہ ان کے پروردگار نے آخر ان کی مدد کی اور ان فرشتوں نے (جو نوعمر مہمانوں کی شکل و صورت میں ان کے یہاں آئے تھے) ان پر اپنا راز ظاہر کردیا اور ان کو تسلی دی کہ آپ پریشان نہ ہوں۔، زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ یہ بدبخت اپنی بد کر داری کے عبرتناک انجام تک پہنچ جائیں گے۔ رہی آنحضرت ﷺ کے ارشاد کی بات، تو جب آنحضرت ﷺ عام لوگوں تک کی غیبت اور عیب جوئی سے منع فرماتے تھے خواہ وہ زندہ ہوں یا وفات پاچکے ہوں تو یہ تصور کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ ایک نبی مرسل (لوط (علیہ السلام) کے بارے میں ایسی بات فرمائیں جو ان کے رتبہ ودرجہ کو کم کرنے یا ان کی کم ہمتی کے اظہار کی موسم ہو، پس آپ ﷺ کے اس ارشاد کی مراد دراصل یہ واضح کرنا تھا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) ایک انسان تھے اور ایسے نازک وقت میں ان کی بشری جبلت کا اندورنی تقاضا یہ ہوا کہ کہ وہ ان بد کردار اور اوباش لوگوں کو مزہ چکھانے کے لئے مضبوط طاقتور لوگوں کی مدد کے متمنی ہوں اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے اس عمل میں ہمارے لئے یہی جواز موجود ہے کہ اس طرح کے موقعوں پر ہم عالم اسباب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے مادی و دنیاوی وسائل و ذرائع سے مدد لے سکتے ہیں باوجودیکہ ہر حالت میں ہمارا اصل بھروسہ رب الارباب پر ہوتا ہے اور ہم حقیقی سہارا اسی کی مدد و نصرت کو جانتے اور مانتے ہیں۔ اب ایک بات اور رہ جاتی ہے کہ پھر آنحضرت ﷺ نے اپنے اس ارشاد کی ابتدا یرحم اللہ کے الفاظ سے کیوں کی؟ تو حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ نے یہ الفاظ استعمال ہی اس لئے فرمائے کہ کوئی شخص حضرت لوط (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو کسر شان پر محمول نہ کرے اور اس کی وہم میں مبتلانہ ہوجائے کہ انہوں نے رکن شدید کا جو سہارا تلاش کیا تھا اس سے ان کے درجہ و مرتبہ کی تنقیص ہوئی یا اس کی وجہ سے ان کی ذات پر کوئی اعتراض وارد ہوتا ہے۔ کلام کے شروع میں اس طرح کے الفاظ کا استعمال محض دعا وتعظیمیا شان و مرتبہ کے تقدس و احترام کو باقی رکھنے کے لئے بھی ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت میں آنحضرت ﷺ کو مخاطب فرمایا گیا ہے۔ عفا اللہ عنک لم اذنت لہم اللہ تعالیٰ آپ کو معاف کرے، آپ ﷺ نے ان کو اجازت کیوں دے دی تھی۔ اگر قید خانہ میں اتنی طویل مدت تک رہتا۔۔۔۔ الخ۔۔ حدیث کے اس آخری جملہ کا تعلق حضرت یوسف (علیہ السلام) کی مدح و تعریف سے ہے جس میں ان کے ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرکے ان کے صبر وثبات کے کمال کو ظاہر فرمایا گیا ہے، اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو عزیر مصر نے ایک غلام کے طور پر خریدا اور اپنے گھر لایا تو ان کے ساتھ غلاموں کا سا معاملہ نہیں کیا بلکہ اپنی اولاد کی طرح عزت و احترام کے ساتھ رکھا اور گھریلو زندگی کی تمام ذمہ داریاں ان کے سپرد کردیں، حضرت یوسف (علیہ السلام) کی جوانی کا عالم تھا۔ جمال و رعنائی اور حسن وخوبروئی کے پیکر تھے، ادھر یہ کہ ہر وقت کا ساتھ، عزیر مصر کی بیوی دل پر قابو نہ رکھ سکی اور حضرت یوسف (علیہ السلام) پر پروانہ وار نثار ہونے لگی، مگر حضرت یوسف (علیہ السلام)، جو خانوادہ نبوت کے چشم وچراغ اور منصب نبوت کے لئے منتخب تھے، بھلا ان سے یہ کس طرح ممکن تھا کہ بےکرداری اور فحش میں مبتلا ہو کر عزیر مصر کی بیوی کے ارادہ بد کو پورا کردیتے، اس عورت نے پہلے تو آرائش حسن وزینت کی بےپناہ نمائش اور عشوہ طرازیوں کی بارش کے ذریعہ ان کو اپنے جال میں پھانسنا چاہا اور جب کامیاب نہ ہوئی تو زبردستی پر اتر آئی، مگر خدا نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اس کے خبث نفس کی گرفت سے بچالیا، پھر اس عورت کے ناکام عشق کا بھید اس کے شوہر عزیر مصر پر بھی کھل گیا لیکن اس نے حقیقت حال سے آگاہ ہو کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ستائش کی اور اپنی عورت کو فہمائش کی اور خفت و رسوائی سے بچنے کے لئے معاملہ کو دبا دیا، مگر بات پوشیدہ نہ رہ سکی اور شدہ شدہ شاہی خاندان کی عورتوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور عزیر مصر کی بیوی اپنی ہم جو لیوں اور سہیلیوں کی طنز وتعریض کا نشانہ بن کر رہ گئی اس صورت حال نے اس کو بوکھلادیا اور اس نے طے کیا کہ طنز وتعریض کرنے والی عورتوں کو ایسا سبق دینا چاہے کہ وہ جس بات پر مجھ پر چھینٹے اڑاتی ہیں خود اس میں مبتلا ہوجائیں۔ چناچہ ایک دن اس نے شاہی خاندان اور عمائدین شہر کی عورتوں کو دعوت دی اور جب سب نے دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کے لئے چھری کانٹے ہاتھ میں لئے تو عزیر مصر کی بیوی نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ باہر آئیں، وہ مالکہ کا حکم سن کر باہر نکلے اور جب عورتوں نے جمال یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا تو رخ انور کی تابانی سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ چیزیں کاٹنے کے بجائے چھری کانٹوں سے ہاتھ کاٹ لئے اور یہ دیکھ کر عزیر مصر کی بیوی بہت محفوظ ہوئی اور فخرہ انداز میں کہنے لگی کہ یہی وہ غلام ہے جس کے عشق و محبت کے بارے میں تم نے مجھے مطعون کر رکھا ہے اور تیرا ملامت کانشانہ بنایا ہوا ہے، اب بتاؤ میرا عشق بیجا ہے یا بجا؟ عزیرمصر کی بیوی نے اس وقت یہ بھی کہا کہ بیشک میں نے اس شخص کو اپنے قابو میں کرنا اور اس کے دل کو اپنے پیجہ عشق میں لینا چاہا مگر یہ میرے قابو میں نہیں آیا، اب میں یہ کہے دیتی ہوں کہ اس نے میرا کہا نہ مانا تو قیدخانہ کی ہوا کھائے گا اور بےعزت ہو کر رہے گا، معاملہ جب اس حد تک پہنچ گیا تو عزیر مصر نے باوجودیکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو پاکباز اور پختہ کردار پرکھ لیا تھا، اپنی بیوی کی فضیحت و رسوائی دیکھ کر یہ طے کرلیا کہ یوسف (علیہ السلام) کو کچھ عرصہ کے لئے قید خانہ میں ڈال دے تاکہ یہ معاملہ لوگوں کے دلوں سے محو ہوجائے اور چرچے بند ہوجائیں اور اس طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) کو قید خانہ میں بند کردیا گیا۔ وہ نو برس تک قید خانہ میں پڑے رہے تاآنکہ بعض واقعات کے نتیجہ میں مصر کا بادشاہ فرعون تک ان کی بزرگی، جلالت قدر اور عظمت شان کا قائل ہوگیا تو اس نے ان کی رہائی کا حکم جاری کردیا، لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) نے قید خانے سے باہر آنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ پہلے میرے معاملہ کی تحقیق کرو اور جن عورتوں نے مجھے دیکھ کر اپنی انگلیاں کاٹ لی تھیں ان سے میرے کردار اور پاکیزگی کی چھان بین کرو، جب تک معاملہ کی اصل صورت سامنے نہیں آجائے گی اور میرا بےقصور اور صاحب عصمت ہونا پوری طرح ظاہر وثابت نہیں ہوجائے گا میری عزت نفس جیل سے باہر آنا گوارا نہیں کرے گی، پس آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر یوسف (علیہ السلام) کی جگہ میں ہوتا اور مجھے اتنی طویل مدت تک قید خانہ میں رہنا پڑجاتا تو رہائی کا پروانہ آتے ہی اس کو قبول کرلیتا اور جیل سے باہر آنے میں کوئی توقف نہ کرتا، نہ اس بات کا مطالبہ کرتا کہ صورت حال کی مکمل تحقیق وتفتیش ہو اور نہ اس تحقیق وتفتیش کے نتیجہ کے ساتھ اپنی رہائی کو مشروط کرتا! یہ آنحضرت ﷺ کی طرف سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زبردست تعریف وتحسین اور ان کے صبر وثبات اور متانت رائے کا اظہار و اعتراف ہے کہ ایسی صورت میں جب کہ کوئی شخص ایک مدت درازتک جیل کی کوٹھری میں بند اور وہاں کے مصائب وآلام میں مبتلا رہے اور جب اس کی رہائی کا پروانہ آئے تو وہ شخص اپنی عزت نفس کی خاطر اس پروانے کو ٹھکرادے اور جیل سے باہر آنے سے اس وقت تک کے لئے انکار کردے جب تک کہ اس کو بالکل بےداغ اور بےقصور قرار نہ دے دیا جائے۔ صبر و استقامت کی ایک ایسی مثال ہے جس کا کسی اور کے لئے تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صرف حضرت یوسف (علیہ السلام) ہی کا کمال تھا کہ انہوں نے بےمثل کردار کا ثبوت دیا تاہم یہ واضح رہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے اس کردار اور ان کی شان استقامت کا ذکر جس انداز میں فرمایا وہ تواضع وکسرنفسی پر محمول ہے ورنہ خود آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی صبر و استقامت کا ایسا پیکر جلیل تھی جو حضرت یوسف (علیہ السلام) ہی کے اس صبر و استقامت پر بھاری نہیں ہے بلکہ آپ ﷺ کا یہ وصف تمام اولو العزم انبیاء سے بلند وبالا ہے۔
Top