مشکوٰۃ المصابیح - جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ - حدیث نمبر 5630
وعن العباس بن عبد المطلب زعم أنه كان جالسا في البطحاء في عصابة ورسول الله صلى الله عليه و سلم جالس فيهم فمرت سحابة فنظروا إليها فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما تسمون هذه ؟ . قالوا : السحاب . قال : والمزن ؟ قالوا : والمزن . قال : والعنان ؟ قالوا : والعنان . قال : هل تدرون ما بعد مابين السماء والأرض ؟ قالوا : لا ندري . قال : إن بعد ما بينهما إما واحدة وإما اثنتان أو ثلاث وسبعون سنة والسماء التي فوقها كذلك حتى عد سبع سماوات . ثم فوق السماء السابعة بحر بين أعلاه وأسفله ما بين سماء إلى سماء ثم فوق ذلك ثمانية أو عال بين أظلافهن ووركهن مثل ما بين سماء إلى سماء ثم على ظهورهن العرش بين أسفله وأعلاه ما بين سماء إلى سماء ثم الله فوق ذلك . رواه الترمذي وأبو داود
آسمانوں کا ذکر :
اور حضرت عباس ابن عبدالمطلب ؓ کہتے ہیں کہ وہ (ایک دن) بطحائے مکہ (میں ایک جگہ محصب) میں لوگوں کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور رسول کریم ﷺ بھی تشریف فرما تھے کہ اچانک ابر کا ایک ٹکڑا گذرا، لوگ اس کی طرف دیکھنے لگے رسول کریم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم اس (ابر) کو کیا کہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ سحاب! آنحضرت ﷺ نے فرمایا اور اس کو مزن بھی کہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں مزن بھی کہتے ہیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا اور اس کو عنان بھی کہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں عنان بھی کہتے ہیں اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم لوگ جانتے ہو، آسمان اور زمین کے درمیان فاصلہ ہے وہ کتنا طویل ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں نہیں معلوم آپ ﷺ نے فرمایا زمین و آسمان کے درمیان کا فاصلہ یا تو اکہتر سال یا بہتر سال یا تہتر سال کی مسافت کے بقدر ہے اور اس (پہلے) آسمان کے اوپر جو (دوسرا) آسمان ہے ان دونوں کے درمیان کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے ساتوں آسمانوں کا ذکر کیا ( کہ ہر آسمان اپنے نیچے کے آسمان سے کچھ اوپر ستر سال کی مسافت کے بقدر فاصلہ پر ہے، پھر ساتویں آسمان کے اوپر پانی کا بہت بڑا سمندر ہے، اس سمندر کی تہ اور اس کے اوپر کی سطح کے درمیان بھی اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان ہے اور اس سمندر کے اوپر آٹھ فرشتے ہیں جو پہاڑی بکروں کے مانند ہیں، ان کے کھروں اور کو لہوں کے درمیان بھی اتناہی فاصلہ ہے جتنا کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان ہم اور پھر ان فرشتوں کی پشت پر عرش الہٰی ہے جس کے نیچے کے حصہ اور اوپر کے حصہ کے درمیان بھی اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان ہے اور اس عرش کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد)

تشریح
حدیث کے ظاہری اسلوب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عباس ؓ نے جس زمانہ کا واقعہ بیان کیا ہے اس وقت تک وہ حلقہ بگوش اسلام نہیں ہوئے تھے۔ اس طرح وہ لوگ بھی مسلمان نہیں تھے جن کے ساتھ حضرت عباس ؓ اس موقع پر تھے۔ نیز اس موقع پر اور ان لوگوں کے درمیان آنحضرت ﷺ کا موجود ہونا بھی اسی کا احتمال رکھتا ہے کہ وہ سب لوگ مکہ کے رہنے والے تھے اور مسلمان ہوچکے تھے اور اگر یہ احتمال قائم کیا جائے کہ وہ سب لوگ مکہ کے کفار تھے اور اسلام کی دعوت دینے کا ارادہ فرمایا ہوگا اور اسی مقصد سے ان کے پاس تشریف لے گئے ہوں۔ یا تو اکہتر سال اور یا بہتر سال اور یاتہتر سال۔ یہ جملہ راوی کے شک کو ظاہر کرتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر ان تینوں میں سے کسی ایک عدد کا ذکر فرمایا تھا، بہرحال حاصل یہ ہے کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کا درمیانی فاصلہ کچھ اوپر ستر سال کی مسافت کے بقدر ہم لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ اس عدد سے مراد تحدید نہیں ہے بلکہ تکثیر و مبالغہ یعنی اس فاصلہ کی وسعت و زیادتی کو بیان کرنا ہے لہٰذا یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ اور ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کے درمیانی فاصلہ کو پانچ سو سال کی مسافت کے بقدر فرمایا گیا ہے۔ ساتویں آسمان کے اوپر پانی کا ایک بڑا سمندر ہے۔ بعض دوسری روایتوں میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا عرش پیدا کرنے کے ساتھ ہی اس عرش کے نیچے ایک بہت بڑا سمندر پیدا کیا اور وہ سمندر مو جو وجاری ہے اور اس عرش کے اوپر اللہ تعالیٰ ہے واضح رہے کہ اس جملہ کی مراد حق تعالیٰ کے مرتبہ کی بلندی، اس کی عظمت و شوکت اور اس کی سلطنت و حکومت کی مافوقیت کو بیان کرنا ہے، نہ کہ مکان وجہت اور استقرار وتمکن کے اعتبار سے اس کی ذات کا عرش پر ہونا مراد ہے! گویا آپ ﷺ نے پروردگار کی عظمت و برتری کو انسانی ذہن میں اتارنے کے لئے بطور تمثیل یہ جملہ ارشاد فرمایا اور مطلب یہ تھا کہ وہ بڑا ہی عالی مرتبہ اور عظیم البرہان ہے اس کی ذات ہر شئے سے بلند وبالا ہے اور تمام موجودات اسی کے حکم اور اسی کی قدرت کے تحت ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے و اللہ من ورآہم محیطٌ اور اللہ سب کو ادھر ادھر سے گھیرے ہوئے ہے اور اصل بات یہ ہے کہ اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے ارشاد و ہدایت کا ایسا مضمون اور اسلوب اختیار فرمایا جس سے ان سب کے ذہن وفکر کی پرواز اس عالم سفلی سے منتقل ہو کر عالم علوی کی طرف مائل ہو اور زمین و آسمان کے اقتدار اعلی (حاکمیت الہٰ ) ایک ایسا تصوراتی خاکہ ان کے دل و دماغ پر منعکس ہو جس سے وہ لوگ کائنات عرض سماء کے پیدا کرنے والے اور کل کائنات کا نظام چلانے والے کی ذات کی طرف متوجہ ہو کر بت پرست ادہام پسندی اور فاسدعقیدہ و خیال کی پستی کا احساس و شعور حاصل کریں اور خود کو ان چیزوں سے باز رکھ سکیں۔
Top