مشکوٰۃ المصابیح - جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ - حدیث نمبر 5638
وعنه قال : بينما نبي الله صلى الله عليه و سلم جالس وأصحابه إذ أتى عليهم سحاب فقال نبي الله صلى الله عليه و سلم : هل تدرون ما هذا ؟ . قالوا : الله ورسوله أعلم . قال : هذه العنان هذه روايا الأرض يسوقها الله إلى قوم لا يشكرونه ولا يدعونه . ثم قال : هل تدرون من فوقكم ؟ قالوا : الله ورسوله أعلم . قال : فإنها الرقيع سقف محفوظ وموج مكفوف . ثم قال : هل تدرون ما بينكم وبينها ؟ قالوا : الله ورسوله أعلم . قال : بينكم وبينها خمسمائة عام ثم قال : هل تدرون ما فوق ذلك ؟ . قالوا : الله ورسوله أعلم . قال : سماءان بعد ما بينهما خمسمائة سنة . ثم قال كذلك حتى عد سبع سماوات ما بين كل سماءين ما بين السماء والأرض . ثم قال : هل تدرون ما فوق ذلك ؟ قالوا : الله ورسوله أعلم . قال : إن فوق ذلك العرش وبينه وبين السماء بعد ما بين السماءين . ثم قال : هل تدرون ما تحت ذلك ؟ . قالوا : الله ورسوله أعلم . قال : إن تحتها أرضا أخرى بينهما مسيرة خمسمائة سنة . حتى عد سبع أرضين بين كل أرضين مسيرة خمسمائة سنة قال : والذي نفس محمد بيده لو أنكم دليتم بحبل إلى الأرض السفلى لهبط على الله ثم قرأ ( هو الأول والآخر والظاهر والباطن وهو بكل شيء عليم ) رواه أحمد والترمذي . وقال الترمذي : قراءة رسول الله صلى الله عليه و سلم الآية تدل على أنه أراد الهبط على علم الله وقدرته وسلطانه وعلم الله وقدرته وسلطانه في كل مكان وهو على العرش كما وصف نفسه في كتابه
زمین و آسمان کا ذکر :
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے کہ ابر کا ایک ٹکڑا گذرا آپ ﷺ نے ابر کے اس ٹکڑے کی طرف اشارہ کرکے صحابہ سے پوچھا کہ جانتے ہو یہ کیا ہے صحابہ کرام نے اپنی عادات کے مطابق جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ عنان یعنی ابر ہے اور یہ ابر زمین کے رویا ہے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی طرف ہانکتا ہے جو نہ اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور نہ اس کو پکارتے ہیں۔ پھر فرمایا جانتے ہو تمہارے اوپر (جو آسمان ہے وہ) کیا چیز ہے؟ صحابہ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہترجانتے ہیں آپ ﷺ فرمایا تمہارے اوپر کی چیز رقیع ہے جو ایک محفوظ چھت اور نہ گرنے والی موج ہے پھر فرمایا جانتے ہو تمہارے اور آسمان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ صحابہ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے اور آسمان کے درمیان پانچ سو برس کی مسافت کے بقدر فاصلہ ہے پھر فرمایا جانتے ہو کہ آسمان کے اوپر کیا ہے؟ صحابہ نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اس آسمان کے بعد پھر اوپر نیچے دو آسمان ہیں اور ان دونوں آسمانوں کے درمیان بھی پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے یکے بعد دیگرے ہر آسمان کا ذکر کیا، یہاں تک کہ ساتوں آسمان کے بارے میں بتایا کہ ان میں سے ہر ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کا فاصلہ وہی ہے جو زمین سے آسمان کے درمیان ہے ( یعنی پانچ سو سال کی مسافت کے بقدر۔ اس کے بعد فرمایا اس ساتویں اور آخری آسمان کے اوپر عرش ہے اور اس عرش اور اس کے نیچے آسمان کے درمیان وہی فاصلہ ہے جو آسمانوں کے درمیان ہے۔ پھر فرمایا جانتے ہو تمہارے نیچے کیا چیز ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا سب سے اوپر کی) زمین ہے پھر فرمایا جانتے ہو اس کے نیچے کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہترجانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اس کے نیچے ایک اور زمین ہے اور ان دونوں زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت (بقدر فاصلہ) ہے اس طرح آپ ﷺ سات زمینیں گنائیں اور بتایا کہ ان میں سے ہر ایک زمین سے دوسری زمین تک کا درمیانی فاصلہ پانچ سو سال کی مسافت کے بقدر ہے اور پھر فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر تم سب سے نیچے والی زمین پر رسی لٹکاؤ تو اللہ تعالیٰ ہی پر اترے گی۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے ( اپنے اس ارشاد کی دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھی (هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ) 57۔ الحدید 3) یعنی وہی (اللہ) اول وہی (قدیم) ہے (کہ اس کے لئے کوئی ابتداء نہیں ہے) اور آخر (باقی) ہے (کہ اس کے لئے کوئی انتہاء اور اختتام نہیں ہے) اور (اپنی صفات کے اعتبار سے ظاہر) ہے اور (اپنی ذات کے اعتبار سے) باطن ہے اور (دونوں جہاں کی) تمام (کلی وجزئی) چیزوں کو جاننے والا ہے (کہ اس کا علم نہایت کامل واکمل ہے اور ایک ایک چیز کے ہر ہر گوشہ پر محیط ہے۔ اس روایت کو احمد اور ترمذی نے نقل کیا ہے، نیز ترمذی نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کا اپنے ارشاد کے بعد اس آیت کو پڑھنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم اس کی قدرت اور اس کی حکومت ہر جگہ ہے اور وہ بذات خود (یعنی اس کی تجلی) عرش پر ہے جیسا کہ خود اسی نے اپنی کتاب میں اپنا وصف بیان کیا ہے۔

تشریح
روایا اصل میں راویہ کی جمع ہے اور راویہ اس اونٹ کو کہتے ہیں جو پانی کھینچتا ہے! پس ابر یعنی بادل کو راویہ سے اس لئے تعبیر کیا کہ جس طرح اونٹ پانی کھینچ کر زمین کو سراب کرتا ہے اسی طرح بادل بھی پانی برسا کر زمین کو سیراب کرتے ہے۔ جو نہ اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اس جملہ کے ذریعہ ان لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو بارش ہونے پر نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے جس کے حکم اور جس کی قدرت سے اس بارش کے نتیجہ میں ان کی زمینیں سیراب ہوتی ہیں، ان کی پانی کی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور ان کی روزی وآمدنی کے ذرائع بار آور ہوتے ہیں بلکہ وہ اس بارش کی نسبت اس کے اصل مسبب (اللہ تعالیٰ کی طرف کرنے کے بجائے ظاہری اسباب کی طرف یا اپنے فاسد خیال و گمان کے مطابق غیر حقیقی طاقتوں اور ساعت و ستاروں کی طرف کرنے لگتے ہیں، اسی طرح اور نہ اس کو پکارتے ہیں۔ کے ذریعہ بھی انہیں لوگوں کی بےحسی اور بدعقیدگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ لوگ اللہ کو پکارنے، اس کی مدد چاہنے اور اس کی عبادت کرنے کی بجائے خود تراشیدہ بتوں اور فانی وغیرحقیقی طاقتوں کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور ان کو اپنا کا رساز ومدد گار سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ پروردگار کا لامحدود کرم اور اس کی بیکراں رحمت ہے کہ وہ ان لوگوں کی ناشکری، بدعملی اور بد عقیدگی کے باوجود ان کو رزق دیتا ہے، ان کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور انہیں امن و عافیت بخشتا ہے۔ رقیع رکے زبر کے ساتھ فعیل کے وزن پر ہے اور یہ پہلے آسمان جس کو آسمان دنیا بھی کہتے ہیں، کا نام ہے لیکن بعض حضرات نے کہا ہے کہ ہر آسمان کو رقیع کہتے ہیں۔ جو ایک محفوظ چھت اور نہ گرنے والی موج ہے میں آسمان کو ایک ایسی مضبوط چھت سے تشبیہ دی گئی ہے جو گرنے پڑنے سے محفوظ ہوتی ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو اس طرح قائم فرمایا ہے کہ نہ اس کے زمین پر گرپڑنے کا خدشہ ہے اور نہ اس میں کسی ٹوٹ پھوٹ کا اندیشہ۔ اسی طرح آسمان کو موج کے ساتھ بایں مناسبت تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح پانی کی کوئی موج ہوا میں معلق ہوجاتی ہے اسی طرح آسمان بھی بغیر کسی ستون اور سہارے کے خلاء میں معلق ہے۔ ان میں سے ہر ایک زمین سے دوسری زمین کا درمیانی فاصلہ۔۔۔۔ الخ۔ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تمام زمینوں میں ایک دوسری کا درمیانی فاصلہ وہی ہے، جو تمام آسمانوں میں ایک دوسرے کا درمیانی فاصلہ ہے لہٰذا جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ زمین کے تمام طبقے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان کوئی باہمی بعد اور فاصلہ نہیں ہے اور اسی وجہ سے قرآن کریم میں ارض زمین کا لفظ بصیغہ مفرد ذکر کیا جاتا ہے جب کہ سماء (آسمان) کا ذکر بصیغہ جمع ہوتا ہے، تو یہ حدیث ان کے خلاف پڑتی ہے، ویسے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ قرآن کریم میں ارض کا لفظ ہر موقع پر بصیغہ مفرد ذکر کیا جاتا ہے اور اس کی نسبت سے لفظا سماء بصیغہ جمع آتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ ارض سے صرف اسی زمین کا ذکر مقصود ہو جس سے اس کائنات کی مخلوق کا اصل تعلق ہے اور جو اس کے قدموں کے نیچے ہے، باقی اور زمینوں سے کسی کو کوئی سروکار نہیں، جب کہ آسمانوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے اور ہر ہر آسمان مصدر فیوض وآثار ہے اور تمام آسمانوں سے اس دنیا کا تعلق جڑا ہوا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ہی پر اترے گی۔ سے مراد جیسا کہ ترمذی نے وضاحت بھی کی ہے، اسی رسی کا اللہ تعالیٰ کے علم وقدرت اور اس کی حکومت پر اترنا ہے۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کا علم اور اس کی معلومات، اس کا دائرہ قدرت واختیار اور اس کا حکم و تسلط جس طرح آسمان کی بلندیوں اور وسعتوں کو گھیرے ہوئے ہے اسی طرح اس روئے زمین پر اور زمین کی آخری گہرائیوں تک پر اس کا علم، اس کی قدرت اور اس کا حکم و تسلط حاوی اور نافذ ہے۔ دراصل آنحضرت ﷺ نے یہ بات شبہ کے دفعیہ کے لئے فرمائی کہ شاید کوئی ناسمجھ اور کم فہم اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے سے اس وہم و گمان کا شکار ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کا دائرہ علم واختیار اور اس کی قدرت صرف آسمان اور آسمانی کائنات تک محدود ہے۔ آسمان سے نیچے کی چیزیں نہ اس کے علم ومعلومات میں ہیں اور نہ اس کے حکم وقدرت کے تحت لہٰذا آپ ﷺ نے واضح کیا کہ اللہ کی قدرت کے آگے آسمانوں کی بلندیوں اور زمینوں کی پہنائیاں، سب یکساں ہے۔ اس کے قدرت اور اس کے حکم کا ظہور جس شان سے آسمان کے اوپر ہے اسی شان سے زمین کی پشت پر اور زمین کے نیچے بھی ہے اور غالباً اسی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے کہا گیا ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کا معراج ان کا مچھلی کے پیٹ میں پہنچنا تھا جس طرح آنحضرت ﷺ کو آسمان کے اوپر معراج حاصل ہوا امام ترمذی نے جو یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر رسی اترنے سے مراد یہ ہے کہ وہ رسی اللہ تعالیٰ کے علم اس کی قدرت اور اس کی حکومت پر اترے گی تو انہوں نے یہ وضاحت اس آیت کی روشنی میں کی ہے جو آنحضرت ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمانے کے بعد پڑھی چناچہ اس آیت کے الفاظ بکل شیء ٍعلیم سے تو اس کا علم مفہوم ہوا اور ہوالاول والاخر، سے اس کی قدرت کا مفہوم نکلا یعنی وہ ایسا اول ہے کہ ہر چیز اس کے ہاتھ میں ہے اور جو بھی چیز موجود ہے وہ اسی کی قدرت سے عدم کا سینہ چیر کر تختہ وجود پر آئی ہے اور وہ ایسا آخر ہے کہ سب کچھ فنا ہوجائے گی مگر اس کی ذات باقی موجود رہے گی نیز اس کی حکومت یا یوں کہئے کہ اس کا تصرف اور اس کا غلبہ والظاہر والباطن سے مفہوم ہوا یعنی وہ ایسا ظاہر ہے کہ ہر چیز اسی کے زیر غلبہ اور زیرتصرف ہے خود اس پر کوئی چیز غالب نہیں ہے تمام موجود چیزوں میں جس طرح چاہتا ہے مالکانہ اور حاکمانہ تصرف کرتا ہے کیونکہ اس مافوق کوئی چیز نہیں ہے تصرف و تسلط میں رکاوٹ ڈالے اور وہ ایسا باطن ہے کہ خلقت کی آنکھوں اور خیال و وہم سے پوشیدہ ہونے کے باوجود ملجا وماوا اس کے علاوہ کوئی نہیں ہر چیز کے اندونی حال سے وہ باخبر ہے کسی کا کوئی راز و بھید اس سے چھپا ہوا نہیں ہے جیسا کہ خود اسی نے اپنی کتاب میں اپنا وصف بیان کیا۔ کے ذریعہ قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ (هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ) 20۔ طہ 5) وہ بڑی رحمت والا پروردگار عرش پر قائم ہے اور یہ آیت اگرچہ بظاہر یہ وہم پیدا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی خاص جہت اور کسی خاص جگہ پر متمکن ہے لیکن حقیقت میں اس سے مراد ہے اس کی سلطنت و حکومت اور اس کے علم وقدرت کے ظاہر کا ذکر ہے۔
Top