صحیح مسلم - توبہ کا بیان - حدیث نمبر 7022
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا ذُکِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُکِرَ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا فَتَشَهَّدَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي وَايْمُ اللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَی أَهْلِي مِنْ سُوئٍ قَطُّ وَأَبَنُوهُمْ بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوئٍ قَطُّ وَلَا دَخَلَ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ وَلَا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ وَفِيهِ وَلَقَدْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي فَسَأَلَ جَارِيَتِي فَقَالَتْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّهَا کَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّی تَدْخُلَ الشَّاةُ فَتَأْکُلَ عَجِينَهَا أَوْ قَالَتْ خَمِيرَهَا شَکَّ هِشَامٌ فَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ فَقَالَ اصْدُقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ فَقَالَتْ سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَی تِبْرِ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ وَقَدْ بَلَغَ الْأَمْرُ ذَلِکَ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا کَشَفْتُ عَنْ کَنَفِ أُنْثَی قَطُّ قَالَتْ عَائِشَةُ وَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَفِيهِ أَيْضًا مِنْ الزِّيَادَةِ وَکَانَ الَّذِينَ تَکَلَّمُوا بِهِ مِسْطَحٌ وَحَمْنَةُ وَحَسَّانُ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ فَهُوَ الَّذِي کَانَ يَسْتَوْشِيهِ وَيَجْمَعُهُ وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّی کِبْرَهُ وَحَمْنَةُ
تہمت کی حدیث اور تہمت لگانے والوں کی توبہ قبول ہونے کے بیان میں
ابوبکربن ابی شیبہ، محمد بن علاء، ابواسامہ، ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب میرے بارے میں بات پھیلائی گئی جو پھیلائی گئی اور میں جانتی بھی نہ تھی تو رسول اللہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو کلمہ شہادت پڑھا پھر اللہ کی وہ حمد وثنا بیان کی جو اس کے شایان شان ہے پھر فرمایا اما بعد مجھے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری اہلیہ پر تہمت لگائی ہے اور اللہ کی قسم میں اپنی بیوی کے بارے میں کسی بھی برائی کو نہیں جانتا اور وہ (صفیان) میرے گھر میں میری موجودگی کے علاوہ کبھی داخل نہیں ہوا اور جس سفر میں میں گیا ہوں وہ بھی میرے ساتھ ہی سفر میں رہا ہے باقی حدیث گزر چکی ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ میرے گھر داخل ہوئے اور میری (بریرہ ؓ لونڈی سے پوچھا تو اس نے عرض کیا اللہ کی قسم میں نے اس میں کوئی عیب نہی پایا۔ سوائے اس کے کہ وہ سو جاتی ہے یہاں تک کہ بکری داخل ہو کر اس کا آٹا کھالیتی ہے پس آپ کے بعض اصحاب نے اسے ڈانٹا تو کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے سچی بات کہو یہاں تک کہ انہوں نے اسے گرادیا اس نے کہا سبحان اللہ اللہ کی قسم مجھے ان کے بارے میں ایسا ہی علم ہے جیسا کہ سنار کو خالص سونے کی ڈلی کے بارے میں ہوتا ہے اور جب یہ معاملہ اس آدمی تک پہنچا جس کے بارے میں یہ بات کی گئی تھی تو اس نے کہا سبحان اللہ اللہ کی قسم میں نے تو کبھی کسی عورت کا کپڑا نہیں کھولا سیدہ نے کہا وہ اللہ کے راستہ میں شہید کئے گئے اور مزید اضافہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بہتان بازی میں گفتگو کی وہ مسطح حمنہ اور حسان تھے بہر حال عبداللہ بن ابی منافق تو اس بات کو آراستہ کر کے پھیلا ہی رہا تھا اور وہی اس بات کا ذمہ دار اور قائد تھا اور حمنہ بھی شریک تھی
Top