سنن النسائی - - حدیث نمبر 4522
و حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَّرَ أَمِيرًا عَلَی جَيْشٍ أَوْ سَرِيَّةٍ أَوْصَاهُ فِي خَاصَّتِهِ بِتَقْوَی اللَّهِ وَمَنْ مَعَهُ مِنْ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا ثُمَّ قَالَ اغْزُوا بِاسْمِ اللَّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَاتِلُوا مَنْ کَفَرَ بِاللَّهِ اغْزُوا وَلَا تَغُلُّوا وَلَا تَغْدِرُوا وَلَا تَمْثُلُوا وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا وَإِذَا لَقِيتَ عَدُوَّکَ مِنْ الْمُشْرِکِينَ فَادْعُهُمْ إِلَی ثَلَاثِ خِصَالٍ أَوْ خِلَالٍ فَأَيَّتُهُنَّ مَا أَجَابُوکَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَکُفَّ عَنْهُمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ فَإِنْ أَجَابُوکَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَکُفَّ عَنْهُمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَی التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَی دَارِ الْمُهَاجِرِينَ وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِکَ فَلَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَی الْمُهَاجِرِينَ فَإِنْ أَبَوْا أَنْ يَتَحَوَّلُوا مِنْهَا فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ يَکُونُونَ کَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ يَجْرِي عَلَيْهِمْ حُکْمُ اللَّهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَی الْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَکُونُ لَهُمْ فِي الْغَنِيمَةِ وَالْفَيْئِ شَيْئٌ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَسَلْهُمْ الْجِزْيَةَ فَإِنْ هُمْ أَجَابُوکَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَکُفَّ عَنْهُمْ فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَقَاتِلْهُمْ وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوکَ أَنْ تَجْعَلَ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ نَبِيِّهِ فَلَا تَجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَلَا ذِمَّةَ نَبِيِّهِ وَلَکِنْ اجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّتَکَ وَذِمَّةَ أَصْحَابِکَ فَإِنَّکُمْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَمَکُمْ وَذِمَمَ أَصْحَابِکُمْ أَهْوَنُ مِنْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ رَسُولِهِ وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوکَ أَنْ تُنْزِلَهُمْ عَلَی حُکْمِ اللَّهِ فَلَا تُنْزِلْهُمْ عَلَی حُکْمِ اللَّهِ وَلَکِنْ أَنْزِلْهُمْ عَلَی حُکْمِکَ فَإِنَّکَ لَا تَدْرِي أَتُصِيبُ حُکْمَ اللَّهِ فِيهِمْ أَمْ لَا قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ هَذَا أَوْ نَحْوَهُ وَزَادَ إِسْحَقُ فِي آخِرِ حَدِيثِهِ عَنْ يَحْيَی بْنِ آدَمَ قَالَ فَذَکَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِمُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ قَالَ يَحْيَی يَعْنِي أَنَّ عَلْقَمَةَ يَقُولُهُ لِابْنِ حَيَّانَ فَقَالَ حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ هَيْصَمٍ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ
لشکر کا امیر بنانے اور اسے وصیت اور جہاد کے آداب وغیرہ کے احکام دینے کے بیان میں
عبداللہ بن ہاشم، عبدالرحمن ابن مہدی، سفیان، علقمہ بن مرثد، حضرت سلیمان بن بریدہ ؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی آدمی کو کسی لشکر یا سریہ کا امیر بناتے تو آپ ﷺ اسے خاص طور پر اللہ سے ڈرنے اور جو ان کے ساتھ ہوں ان کے ساتھ مسلمان (مجاہدین) کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت فرماتے پھر آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کا نام لے کر اللہ کے راستے میں جہاد کرو عہد شکنی نہ کرو اور مثلہ (یعنی کسی کے اعضاء کاٹ کر اس کی شکل نہ بگاڑی جائے) نہ کرو اور کسی بچے کو قتل نہ کرو اور جب تمہارا اپنے دشمن مشرکوں سے مقابلہ ہوجائے تو ان کو تین باتوں کی دعوت دینا وہ ان میں سے جس کو بھی قبول کرلیں تو ان کے ساتھ جنگ سے رک جانا پھر انہیں اسلام کی دعوت دو تو اگر وہ تیری دعوت اسلام کو قبول کرلیں تو ان سے جنگ نہ کرنا پھر ان کو دعوت دینا کہ اپنا شہر چھوڑ کر مہاجرین کے گھروں میں چلے جائیں اور ان کو خبر دیدیں کہ اگر وہ اس طرح کرلیں تو جو مہاجرین کو مل رہا ہے وہ انہیں بھی ملے گا اور ان کی وہ ذمہ داریاں ہوں گی جو مہاجرین پر ہیں اور اگر وہ اس سے انکار کردیں تو انہیں خبر دے دو کہ پھر ان پر دیہاتی مسلمانوں کا حکم ہوگا اور ان پر اللہ کے وہ احکام جاری ہوں گے جو کہ مومنوں پر جاری ہوتے ہیں اور انہیں جہاد کے بغیر مال غنیمت اور مال فئے میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا اور اگر وہ تمہاری دعوت قبول کرلیں تو تم بھی ان سے قبول کرو اور ان سے جنگ نہ کرو اور اگر وہ انکار کردیں تو اللہ کی مدد کے ساتھ ان سے قتال کرو اور جب تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرلو اور وہ قلعہ والے اللہ اور رسول کو کسی بات پر ضامن بنانا چاہیں تو تم ان کے لئے نہ اللہ کے ضامن اور نہ ہی اللہ کے نبی ﷺ کو ضامن بنانا بلکہ تم اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو ضامن بنانا کیونکہ تمہارے لئے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے عہد سے پھرجانا اس بات سے آسان ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے عہد کو توڑو اور جب تم کسی قلعہ والوں کو محاصرہ کرلو اور وہ قلعہ والے یہ چاہتے ہوں کہ تم انہیں اللہ کے حکم کے مطابق قلعہ سے نکالو تو تم اللہ کے حکم کے مطابق نہ نکالو بلکہ انہیں اپنے حکم کے مطابق نکالو کیونکہ تم اس بات کو نہیں جانتے کہ تمہاری رائے اور اجتہاد اللہ کے حکم کے مطابق ہے یا نہیں۔
It has been reported from Sulaiman bin Buraid through his father that when the Messenger of Allah ﷺ appointed anyone as leader of an army or detachment he would especially exhort him to fear Allah and to be good to the Muslims who were with him. He would say: Fight in the name of Allah and in the way of Allah. Fight against those who disbelieve in Allah. Make a holy war, do not embezzle the spoils; do not break your pledge; and do not mutilate (the dead) bodies; do not kill the children. When you meet your enemies who are polytheists, invite them to three courses of action. If they respond to any one of these, you also accept it and withold yourself from doing them any harm. Invite them to (accept) Islam; if they respond to you, accept it from them and desist from fighting against them. Then invite them to migrate from their lands to the land of Muhajirs and inform them that, if they do so, they shall have all the privileges and obligations of the Muhajirs. If they refuse to migrate, tell them that they will have the status of Bedouin Muslims and will be subjected to the Commands of Allah like other Muslims, but they will not get any share from the spoils of war or Fai except when they actually fight with the Muslims (against the disbelievers). If they refuse to accept Islam, demand from them the Jizya. If they agree to pay, accept it from them and hold off your hands. If they refuse to pay the tax, seek Allahs help and fight them. When you lay siege to a fort and the besieged appeal to you for protection in the name of Allah and His Prophet, do not accord to them the guarantee of Allah and His Prophet, but accord to them your own guarantee and the guarantee of your companions for it is a lesser sin that the security given by you or your companions be disregarded than that the security granted in the name of Allah and His Prophet ﷺ be violated When you besiege a fort and the besieged want you to let them out in accordance with Allahs Command, do not let them come out in accordance with His Command, but do so at your (own) command, for you do not know whether or not you will be able to carry out Allahs behest with regard to them.
Top