سنن ابنِ ماجہ - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 4659
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ قَالَ ابْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا و قَالَ الْآخَرَانِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَکِبَ حِمَارًا عَلَيْهِ إِکَافٌ تَحْتَهُ قَطِيفَةٌ فَدَکِيَّةٌ وَأَرْدَفَ وَرَائَهُ أُسَامَةَ وَهُوَ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ وَذَاکَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ حَتَّی مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلَاطٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِکِينَ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ وَالْيَهُودِ فِيهِمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَلَمَّا غَشِيَتْ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ ثُمَّ قَالَ لَا تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَی اللَّهِ وَقَرَأَ عَلَيْهِمْ الْقُرْآنَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَيُّهَا الْمَرْئُ لَا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِنْ کَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَلَا تُؤْذِنَا فِي مَجَالِسِنَا وَارْجِعْ إِلَی رَحْلِکَ فَمَنْ جَائَکَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَيْهِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ اغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِکَ قَالَ فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِکُونَ وَالْيَهُودُ حَتَّی هَمُّوا أَنْ يَتَوَاثَبُوا فَلَمْ يَزَلْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ ثُمَّ رَکِبَ دَابَّتَهُ حَتَّی دَخَلَ عَلَی سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ أَيْ سَعْدُ أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَی مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَالَ کَذَا وَکَذَا قَالَ اعْفُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاصْفَحْ فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَاکَ اللَّهُ الَّذِي أَعْطَاکَ وَلَقَدْ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبُحَيْرَةِ أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُوهُ بِالْعِصَابَةِ فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِکَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاکَهُ شَرِقَ بِذَلِکَ فَذَلِکَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ فَعَفَا عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
نبی ﷺ کا دعوت اسلام دینا اور اس پر منافقوں کی ایذاء رسانیوں پر صبر کرنے کا بیان
اسحاق بن ابراہیم حنظلی، محمد بن رافع، عبد بن حمید، ابن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ، حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ (ایک دن) گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان تھا اور آپ ﷺ کے نیچے فدک کی ایک چادر تھی اور آپ ﷺ نے اپنے پیچھے اسامہ کو سوار کرلیا اور آپ بنی حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کے لئے جا رہے تھے تھے اور یہ واقعہ بدر سے پہلے کا ہے یہاں تک کہ ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جہاں مسلمان، مشرکین، بت پرست اور یہود وغیرہ اکٹھے بیٹھے تھے ان میں عبداللہ بن ابی اور عبداللہ بن رواحہ بھی بیٹھے تھے جب مجلس پر جانور کے پاؤں کا غبار چھا گیا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک کو اپنی چادر سے ڈھانپ لیا پھر کہا ہم پر غبار نہ ڈالو پس نبی ﷺ نے ان کو سلام کیا پھر ٹھہر گئے اور (سواری سے) اتر کر انہیں اللہ کی طرف دعوت دی اور ان کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کی تو عبداللہ بن ابی نے کہا اے آدمی اس (کلام) سے بہتر کوئی کلام نہیں اگر جو کچھ تم کہہ رہے ہو سچ ہو تو بھی ہم کو ہماری مجلس میں تکلیف نہ دو اور اپنی سواری کی طرف لوٹ جاؤ اور ہم میں سے جو تیرے پاس آئے اسے یہ قصہ سنانا۔ عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا آپ ﷺ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں ہمیں یہ بات پسند ہے پھر مسلمان مشرکین اور یہود ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے یہاں تک کہ ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہوگئے مگر نبی ﷺ نے ان کا جوش ٹھنڈا کردیا پھر اپنی سواری پر سوار ہوگئے یہاں تک کہ حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے پاس پہنچے تو فرمایا اے سعد! کیا تم نے ابوحباب عبداللہ بن ابی کی بات سنی ہے؟ اس نے اس اس طرح کہا ہے۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اسے معاف فرما دیں اور درگزر فرمائیں اللہ کی قسم اللہ نے جو کچھ آپ ﷺ کو عطا فرمایا وہ عطا فرما ہی دیا ہے اس آبادی والوں نے اس بات پر اتفاق کرلیا تھا کہ وہ اس کو تاج پہنچائیں اور بادشاہت کی پگڑی اس کے سر پر باندھیں لیکن اللہ نے ان کے فیصلے کو حق عطا کرنے کے ساتھ رد کردیا تو (ابو حباب) حسد میں مبتلا ہوگیا پس اس نے اس وجہ سے یہ معاملہ کیا پس نبی کریم ﷺ نے اسے معاف فرما دیا۔
It has been narrated on the authority of Usama bin Zaid that the Prophet ﷺ rode a donkey. It had on it a saddle under which was a mattress made at Fadak (a place near Madinah). Behind him he seated Usama. He was going to the street of Banu Harith al-Khazraj to inquire after the health of Sad bin Ubadah. This happened before the Battle of Badr. (He proceeded) until he passed by a mixed company of people in which were Muslims, polytheists, idol worshippers and the Jews and among them were Abdullah bin Ubayy and Abdullah bin Rawaha. When the dust raised by the hoofs of the animal spread over the company, Abdullah bin Ubayy covered his nose with his mantle and said: Do not scatter the dust over us (Not minding this remark), the Holy Prophet ﷺ greeted them, stopped, got down from his animal, invited them to Allah, and recited to them the Quran. Abdullah bin Ubayy said: O man, if what you say is the truth, the best thing for you would be not to bother us with it in our assemblies. Get back to your place. Whoso comes to you from us, tell him (all) this.Abdullah bin Rawaha said: Come to us in our gatherings, for we love (to hear) it. The narrator says: (At this), the Muslims, the polytheists and the Jews began to rebuke one another until they were determined to come to blows. The Holy Prophet ﷺ continued to pacify them. (When they were pacified), he rode his animal and came to Sad bin Ubida. He said: Sad, havent you heard what Abu Hubab (meaning Abdullah bin Ubayy) has said? He has said so and so. Sad said: Messenger of Allah, forgive and pardon. God has granted you a sublime position, (but so far as he is concerned) the people of this settlement had-decided to make him their king by making him wear a crown and a turban (in token thereof), but God has circumvented this by the truth He has granted you. This has made him jealous and his jealousy (must have) prompted the behaviour that you have witnessed. So, the Holy Prophet ﷺ (may peace upon him) forgave him.
Top