سنن النسائی - - حدیث نمبر 4686
و حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ قَالَ کَتَبَ نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ الْحَرُورِيُّ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ الْعَبْدِ وَالْمَرْأَةِ يَحْضُرَانِ الْمَغْنَمَ هَلْ يُقْسَمُ لَهُمَا وَعَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ وَعَنْ الْيَتِيمِ مَتَی يَنْقَطِعُ عَنْهُ الْيُتْمُ وَعَنْ ذَوِي الْقُرْبَی مَنْ هُمْ فَقَالَ لِيَزِيدَ اکْتُبْ إِلَيْهِ فَلَوْلَا أَنْ يَقَعَ فِي أُحْمُوقَةٍ مَا کَتَبْتُ إِلَيْهِ اکْتُبْ إِنَّکَ کَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ يَحْضُرَانِ الْمَغْنَمَ هَلْ يُقْسَمُ لَهُمَا شَيْئٌ وَإِنَّهُ لَيْسَ لَهُمَا شَيْئٌ إِلَّا أَنْ يُحْذَيَا وَکَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَقْتُلْهُمْ وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْهُمْ إِلَّا أَنْ تَعْلَمَ مِنْهُمْ مَا عَلِمَ صَاحِبُ مُوسَی مِنْ الْغُلَامِ الَّذِي قَتَلَهُ وَکَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ الْيَتِيمِ مَتَی يَنْقَطِعُ عَنْهُ اسْمُ الْيُتْمِ وَإِنَّهُ لَا يَنْقَطِعُ عَنْهُ اسْمُ الْيُتْمِ حَتَّی يَبْلُغَ وَيُؤْنَسَ مِنْهُ رُشْدٌ وَکَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ ذَوِي الْقُرْبَی مَنْ هُمْ وَإِنَّا زَعَمْنَا أَنَّا هُمْ فَأَبَی ذَلِکَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا
جہاد کرنے والی عورتوں کو بطور عطیہ دینے اور غنیمت میں حصہ مقرر نہ کرنے کا حکم اور اہل حرب کے بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت کے بیان میں
ابن ابی عمر، سفیان، اسماعیل بن امیہ، سعید مقبری، یزید بن ہرمز، حضرت یزید بن ہرمز ؓ سے روایت ہے کہ نجدہ بن عامر حروری نے حضرت ابن عباس ؓ سے غلام اور عورت کے بارے میں پوچھنے کے لئے لکھا کہ اگر وہ دونوں مال غنیمت کی تقسیم کے وقت موجود ہوں تو کیا انہیں حصہ دیا جائے گا اور بچوں کے قتل کے بارے میں اور یتیم کے بارے میں پوچھا کہ اس کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے اور ذوی القربی کے بارے میں کہ وہ کون ہے تو ابن عباس ؓ نے یزید سے کہا اس کی طرف لکھو اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ وہ حماقت میں واقع ہوجائے گا تو اس کا جواب نہ لکھتا لکھو تو نے عورت اور غلام کے بارے میں مجھ سے پوچھنے کے لئے لکھا کہ اگر وہ مال غنیمت کی تقسیم کے وقت موجود ہوں تو کیا انہیں بھی کچھ ملے گا ان کے لئے سوائے عطیہ کے کوئی حصہ نہیں ہے اور تو نے مجھ سے بچوں کے قتل کے بارے میں پوچھنے کے لئے لکھا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں قتل نہیں کیا اور تو بھی انہیں قتل نہ کر سوائے اس کے کہ تجھے وہ علم ہوجائے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی (حضرت خضر (علیہ السلام) کو اس بچے کے بارے میں علم ہوگیا تھا جنہیں انہوں نے قتل کیا اور تو نے مجھ سے یتیم کے بارے میں پوچھنے کے لئے لکھا کہ یتیم سے یتیمی کب ختم ہوتی ہے یتیم سے یتیمی کا نام اس کے بالغ ہونے تک ختم نہیں ہوتا اور سمجھ کے آثار کے نمودار ہونے تک اور تو نے مجھ سے ذوالقربی کے بارے میں پوچھنے کے لئے لکھا کہ وہ کون ہیں ہمارا خیال تھا کہ وہ ہم ہیں لیکن ہماری قوم نے ہمارے بارے میں اس بات کا انکار کردیا۔
It has been narrated on the authority of Yazid bin Hurmuz who said: Najda bin Amir al-Haruri wrote to Ibn Abbas (RA) asking him about the slave and the woman as to whether they would get a share from the booty (it they participated in Jihad); about the killing of (enemy) children (in war); about the orphan as to when his orphanhood comes to an end; about kinsmen (of the Holy Prophet) as to who they are. He said to Yazid: Write to him. (If he were not likely to fall into folly, I would not have written to him.) Write: You have written asking about the woman and the slave whether they would get a share of the booty if they participated in Jihad. (You should know that) there is nothing of the sort for them except that they will be given a prize. And you have written asking me about the killing of the enemy children in war. (You should understand that) the Messenger of Allah ﷺ (may peare be upon him) did not kill them. and thou shouldst not kill them unless thou knew what the companion of Moses (علیہ السلام) (i. e. Khadir) knew about the boy he had killed. And you have written asking me about the orphan as to when the period of his orphanhood comes to an end, so that the sobriquet of "orphan" is dropped from him. (In this regard, you should know that) the sobriquet "orphan" will not be dropped from him until he attains maturity of body and mind. And you have written asking me about the close relatives (of the Holy Prophet) as to who they are. We think that it is we, but our people have denied us this (position and its concomitant privileges).
Top