سنن ابو داؤد - - حدیث نمبر
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ الْأَشْجَعِيُّ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عُبَيْدٍ الْمُکْتِبِ عَنْ فُضَيْلٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَحِکَ فَقَالَ هَلْ تَدْرُونَ مِمَّ أَضْحَکُ قَالَ قُلْنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ مِنْ مُخَاطَبَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ يَقُولُ يَا رَبِّ أَلَمْ تُجِرْنِي مِنْ الظُّلْمِ قَالَ يَقُولُ بَلَی قَالَ فَيَقُولُ فَإِنِّي لَا أُجِيزُ عَلَی نَفْسِي إِلَّا شَاهِدًا مِنِّي قَالَ فَيَقُولُ کَفَی بِنَفْسِکَ الْيَوْمَ عَلَيْکَ شَهِيدًا وَبِالْکِرَامِ الْکَاتِبِينَ شُهُودًا قَالَ فَيُخْتَمُ عَلَی فِيهِ فَيُقَالُ لِأَرْکَانِهِ انْطِقِي قَالَ فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِهِ قَالَ ثُمَّ يُخَلَّی بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْکَلَامِ قَالَ فَيَقُولُ بُعْدًا لَکُنَّ وَسُحْقًا فَعَنْکُنَّ کُنْتُ أُنَاضِلُ
دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں
ابوبکر بن نضر بن ابی نضر، ابونضر، ہاشم بن قاسم، عبیداللہ، سفیان ثوری، عبیدالمکتب، فضیل، شعبی، حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ ﷺ ہنسے آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ میں کس وجہ سے ہنسا ہوں حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں آپ نے فرمایا میں بندے کی اس بات سے ہنسا ہوں کہ جو وہ اپنے رب سے کرے گا وہ بندہ عرض کرے گا اے پروردگار کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی آپ ﷺ نے فرمایا اللہ فرمائے گا ہاں آپ ﷺ نے فرمایا پھر بندہ عرض کرے گا میں اپنے اوپر اپنی ذات کے علاوہ کسی کی گواہی کو جائز نہیں سمجھتا آپ ﷺ نے فرمایا پھر اللہ فرمائے گا کہ آج کے دن تیرے اوپر تیری ہی ذات کی گوہی اور کراما کا تبین کی گواہی کفایت کر جائے گی آپ نے فرمایا پھر اس بندے کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے دیگر اعضاء کو کہا جائے گا کہ بولیں آپ ﷺ نے فرمایا اس کے اعضاء اس کے سارے اعمال بیان کریں گے آپ ﷺ نے فرمایا پھر بندہ اپنے اعضاء سے کہے گا دور ہوجاؤ چلو دور ہوجاؤ میں تمہاری طرف سے ہی تو جھگڑا کر رہا تھا۔
Anas bin Malik (RA) reported: We were in the company of Allahs Messenger ﷺ that he smiled and said: Do you know why I laughed? We said: Allah and His Messenger, know best. Thereupon he said: It was because of the (fact that there came to my mind) the talk which the servant would have with his Lord (on the Day of Judgment). He would say: My Lord, have you not guaranteed me protection against injustice? He would say: Yes. Then the servant would say: I do not deem valid any witness against me but my own self, and He would say: Well, enough would be the witness of your self against you and that of the two angels who had been appointed to record your deeds. Then the seal would be set upon his mouth and it would be said to his hands and feet to speak and they would speak of his deeds. Then the mouth would be made free to talk, he would say (to the hands and feet): Be away, let there be curse of Allah upon you. It was for your safety that I contended.
Top