مؤطا امام مالک - کتاب صلوة الجماعة - حدیث نمبر 289
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ قَضِيَّاتٍ أَرَادَ أَهْلُهَا أَنْ يَبِيعُوهَا وَيَشْتَرِطُوا وَلَائَهَا فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اشْتَرِيهَا وَأَعْتِقِيهَا فَإِنَّ الْوَلَائَ لِمَنْ أَعْتَقَ قَالَتْ وَعَتَقَتْ فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا قَالَتْ وَکَانَ النَّاسُ يَتَصَدَّقُونَ عَلَيْهَا وَتُهْدِي لَنَا فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَهُوَ لَکُمْ هَدِيَّةٌ فَکُلُوهُ
ولاء آزاد کرنے والے ہی کا حق ہے کے بیان میں
زہیر بن حرب، محمد بن العلاء، ابومعاویہ، ہاشم بن عروہ، عبدالرحمن بن قاسم، سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ بریرہ ؓ کے بارے میں تین مسائل پیدا ہوئے ایک تو یہ کہ اس کے مالکوں نے اس کے بیچنے کا تو ارادہ کیا لیکن اس کی ولاء کی شرط رکھی میں نے اس بات کا نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا تو اس کو خرید لے اور آزاد کر دے بیشک ولاء کا حق اسی کو ہے جس نے آزاد کیا دوسرا یہ کہ وہ آزاد کردی گئیں رسول اللہ ﷺ نے اسے اختیار دیا تو اس نے اپنے نفس کو یعنی علیحدگی کو پسند کیا تیسرا یہ کہ لوگ بریرہ کو صدقہ دیا کرتے تھے اور وہ ہمارے لئے ہدیہ کرتی تھیں میں نے اس بات کو نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ اس پر صدقہ ہے اور تمہارے لئے ہدیہ ہے اس کو کھاؤ۔
Abdul Rahman bin al. Qasim reported on the authority of his father: Aisha (Allah be pleased with her) said: There were three issues which were clarified in case of Barira: her owners had decided to sell her on the condition that the right of her inheritance would vest with them. She (Aisha) said: I made a mention of that to Allahs Apostle ﷺ and he said: Buy her and emancipate her, for verily the right of inheritance vests with one who emancipates. She said that she emancipated (her) and Allahs Messenger ﷺ gave her the option (either to retain her matrimonial alliance or break it after emancipation). She (taking advantage of the option) opted for herself (the severing of matrimonial alliance). Aisha said: The people used to give her charity and she gave us that as gift. I made a mention of it to Allahs Apostle ﷺ , whereupon he said: That is charity for her but gift for you, so take that.
Top